1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاناما پیپرز میں مذکور سب پاکستانیوں کے خلاف تفتیش کا فیصلہ

عبدالستار، اسلام آباد
27 دسمبر 2017

پاکستان کے قومی احتساب بیورو ’نیب‘ کے چیئرمن جسٹس جاوید اقبال نے اپنے ادارے کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان تمام چار سو پینتیس پاکستانی شہریوں کے خلاف تفتیش کرے، جن کے ناموں کا پاناما پیپرز میں ذکر کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2q0xO
تصویر: picture-alliance/maxppp/J. Pelaez

اس فیصلے کے ساتھ ہی اب ملک میں یہ تبصرے ہو رہے ہیں کہ کیا یہ ممکن بھی ہو گا۔ سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز کے حوالے سے سب سے پہلے اپنی درخواست لے کر جانے والے ماہر قانون اسد طارق نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میں سب سے پہلے یہ پٹیشن لے کر گیا تھا، جس میں تقریباﹰ چار سو پینتیس افراد کے نام تھے۔ لیکن عدالت نے پہلے عمران خان کی پٹیشن کو لے لیا۔ جماعت اسلامی نے بھی جو پٹیشن دائر کی تھی، اس میں اتنے نام نہیں تھے۔ میں نے تو کئی افراد کے نام اور دیگر تفصیلات بھی دی ہیں۔ لیکن میرے خیال میں اس درخواست کے حوالے سے نیب کوئی خاص تفتیش نہیں کر پائے گا اور نہ ہی عدالتیں کچھ کریں گی کیونکہ یہ عدالتیں آزاد نہیں ہیں اور دباؤ کا شکار ہیں۔‘‘

نواز شریف، مریم کے لیے پیشی سے استثنیٰ، حسن اور حسین اشتہاری

نواز شریف کے خلاف ایک نہیں تین مقدمات چلیں گے

نواز شریف مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے واپس پاکستان میں

ایک سوال کے جواب میں اسد طارق نے کہا، ’’پاناما پیپرز میں بہت سے بااثر سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور تاجروں کے نام ہیں۔ ان میں سیلم سیف اللہ، نواز شریف، عمران خان، جہانگیر ترین، پرویز مشرف اور پروفیسر خورشید کے نام زیادہ جانے پہچانے ہیں۔ میں نے یہاں تک کہا کہ اگر سب کے خلاف تفتیش نہیں ہو سکتی، تو کچھ بڑوں کے خلاف ہی کر لیں، جیسا کہ پرویز مشرف۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ تفتیش ہو گی اور اس میں کوئی کامیابی بھی ہو گی۔‘‘

Symbolbild Panama Papers - Daten-Leak Steuerflüchtlinge
تصویر: picture-alliance/maxppp/J. Pelaez


لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں بھی یہ صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ایک خبر دی گئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس طرح کے کیسوں کو عوام میں پذیرائی ملتی ہے۔ اسی لیے یہ خبر دی گئی ہے۔ لیکن درحقیقت نیب کوئی خاص کام نہیں کر سکے گا۔ ایک تو اس کی اپنی صلاحیت کا بھی سوال ہے، جس کا مظہر حدیبیہ کیس ہے، جس میں نیب کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ انتخابات سے پہلے ایسی تفتیش سے ایک پنڈورا باکس کھل جائے گا جس کو نہ سیاست دان پسند کریں گے اور نہ ہی دوسرے لوگ۔‘‘

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا، ’’پاناما پیپرز میں پی ٹی آئی اور نون لیگ سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد ہے۔ تو اگر صحیح طریقے سے تفتیش ہوتی ہے، جیسا کہ نواز شریف کے کیس میں ہوئی، اور ایجنسیوں کی مدد بھی نیب کو حاصل رہی، تو پھر انہی سیاسی جماعتوں کو سب سے زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔‘‘

Pakistan Ex-Premierminister Nawaz Sharif
نواز شریف کو پاناما پیپرز ہی کے سلسلے میں نااہل قرار دیا گیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

نواز شریف کے داماد ملک لوٹتے ہی گرفتار اور پھر ضمانت پر رہا

نواز شریف نا اہل ہی ہیں، نظر ثانی درخواست مسترد

کون بنے گا وزیراعظم؟

لیکن ملک میں کئی ایسے افراد بھی ہیں، جن کے خیال میں ایسی تفتیش بالکل ممکن ہے۔ ایف آئی اے پنجاب کے سابق ڈائریکٹر ظفر قریشی کے خیال میں اگر نیت صاف ہو تو بالکل تفتیش ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں آپ کو اپنی بات بتاؤں، این ایل سی اسکینڈل کے حوالے سے دو کیسوں کی تفتیش مجھے دی گئی تھی اور تین کیسوں کو سندھ ایف آئی اے نے لیا تھا۔ میں نے اپنی تفتیش کے ذریعے تین بلین روپے حکومت کو واپس دلوائے۔ مجھے پر شدید دباؤ تھا۔ ملزمان کا تعلق مسلم لیگ ق سے تھا اور انہوں نے پی پی پی کے ساتھ معاہدہ کر لیا تھا اور پرویز الہٰی نائب وزیر اعظم بن گیا تھا لیکن پھر بھی میں نے تفتیش نہیں چھوڑی تھی اور ان کو یہ ادائیگیاں کرنا پڑی تھیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ واقعی خلوص کے ساتھ تفتیش کرنا چاہیں، تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ ایسا نہ کر سکیں۔‘‘

لیکن کیا مالیاتی معاملات کی تفتیش آسانی سے ممکن ہے؟ اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کا کہنا تھاکہ اب کئی ممالک ٹیکس چوری اور اثاثے چھپانے کے خلاف ہیں اور اب یہ تفتیش آسانی سے ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اب تو مغرب میں بھی یہ شور ہو رہا ہے کہ ٹیکس سے بچنے کے لیے ایسی کمپنیاں کھولنا مناسب نہیں اور دنیا کے کئی ممالک اور ادارے اثاثوں کو چھپانے کے خلاف ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ تاہم اس میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر ان چار سو سے زائد افراد میں تاجر بھی ہوئے، تو پھر اس کے ملکی معیشت پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں اور سرمایہ کاری کی رفتار سست ہو سکتی ہے۔‘‘

پاناما لیکس: جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں بھی محاسبے کی صدائیں