1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: بھنڈی سے ماحول دوست، معیاری فیبرک کی تیاری

15 مئی 2022

پاکستانی سائنسدانوں نے بھنڈی سے کپڑا تیار کیا ہے۔ یہ ماحول دوست فیبرک سوت کے ساتھ شامل کر کے معیاری فیبرک بنانے کے کام آ سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4BHAU
پاکستان بھنڈی کے ضائع شدہ مواد سے فیبرک تیار
ڈاکٹر محسن نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر بھنڈی کے ضائع شدہ مواد سے فیبرک تیار کیا ہے۔تصویر: Saadeqa Khan/DW

یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی فیصل آباد کے ٹیکسٹائل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر محسن نے اپنی ٹیم کے ساتھ اوکرا یا بھنڈی کے ضائع شدہ مواد سے فیبرک تیار کیا ہے، جسے کاٹن کے ساتھ شامل کر کے معیاری فیبرک تیار کیا جا سکتا ہے، جو ماحول دوست بھی ہے۔ 

پاکستانی تعلیمی اداروں  میں اگرچہ سائنسی تحقیق کے لیے سہولیات اور وسائل انتہائی کم ہیں تاہم اس کے با وجود آئے روز ملکی جامعات سے بین الاقوامی سطح کی تحقیقات سامنے آتی رہتی ہیں۔ ایسا ہی ایک کارنامہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی فیصل آباد کے ٹیکسٹائل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر محسن نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر سر انجام دیا۔ انہوں نے بھنڈی کے ضائع شدہ مواد سے فیبرک تیار کیا ہے۔ اس حوالے سے ڈوئچے ویلے اردو نے ڈاکٹر محمد محسن سے خصوصی بات چیت کی ہے۔

Pakistan | Textilherstellung durch Okra-Abfälle
بھنڈی سے تیار کردہ دھاگاتصویر: Saadeqa Khan/DW

اوکرا سے فیبرک کی تیاری کا خیال کیسے آیا؟

ڈاکٹر محسن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اوکرا سے فیبرک کی تیاری کا آئیڈیا نیا نہیں ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس پر 2018ء سے کام ہو رہا ہے۔ پاکستان دنیا بھر بھنڈی کی پیداوار میں تیسرے نمبر پر ہے۔ ملک میں تقریبا 45 ہزار ایکڑ رقبے پر بھنڈی کاشت کی جاتی ہے، جس سے سالانہ 180 ملین کلوگرام بھنڈی پیدا ہوتی ہے۔ مگر اس کے تنوں سے پیدا ہونے والا 335 ملین کلوگرام فاضل مواد جلا دیا جاتا ہے، جس سے پاکستان  میں فضائی اور زمینی آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر محسن بتاتے ہیں کہ ان کی ٹیم کا آئیڈیا  یہ تھا کہ اتنی بڑی مقدار میں ضائع ہو جانے والے مواد کو استعمال میں لایا جائے تا کہ بڑھتی ہوئی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پایا جا سکے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اوکرا سٹیم کے فاضل مواد میں تقریباﹰ 67.5 فیصد سیلولوز ہوتا ہے، جس سے بہت سی کارآمد اشیاء تیار کی جا سکتی ہیں۔  

  

پاکستان کی مغربی معيارات پر پورا اترنے والی فيکٹری

 ایک اندازے کے مطابق اوکرا سٹیم  کا جو فاضل مواد سالانہ جلایا جا رہا ہے، اس سے فیبرک تیار کر کے پاکستان تقریبا 55 کروڑ روپے کا زرمبادلہ حاصل کر سکتا ہے۔ 

اوکرا فائبر کی تیاری کا عمل کیا ہے؟

ڈاکٹر محسن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اوکرا سے فائبر کی تیاری کا عمل کاٹن کی تیاری سے نسبتا سستا ہے،''مگر ابتدا میں ہمیں بہت سی  تکنیکی دشواریوں  کا سامنا تھا، جن میں سوت کی تیاری، اس سے کپڑا بنانا اور پھر رنگنے کا عمل شامل تھے۔ ان پیچیدگیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں اوکرا سے فیبرک کی تیاری ابھی تک محدود ہے۔‘‘ 

مگر یو ای ٹی فیصل آباد کی ٹیم اس عمل میں جدت لائی اور تکنیکی دشواریوں  کو کامیابی سے دور کیا۔ یہ امر یقینا قابل فخر ہے کہ اوکرا سے فیبرک کی تیاری کا یہ نیا طریقۂ کار کیمیائی پیچیدگیوں سے پاک ہے۔

ڈاکٹر محسن کے مطابق، ''ہم نے ایک چھوٹے سائز کی جدید گھومنے والی لیبارٹری بھی تیار کی ہے، جس میں اوکرا فائبر کو کاٹن اور سوت کے ساتھ بلینڈ کر کے اعلی معیاری کپڑا تیار کیا جاتا ہے۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی لیبارٹری ہے۔ نئے تیار شدہ کپڑے کی رنگائی کا عمل بھی یو ای ٹی ٹیکسٹائل ڈیپارٹمنٹ میں کیا جاتا ہے، جس سے یہ پورا عمل انتہائی سہل ہو گیا ہے۔

کیا پاکستان میں اوکرا فائبر کمرشل بنیادوں پر تیار کیا جائے گا؟

ڈاکٹر محسن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اوکرا سے تیار کردہ فائبر کاٹن کی نسبت سستا ہے اور اس کی تیاری کے لیے خام مال بھی پاکستان میں وافر مقدار میں با آسانی دستیاب ہے۔ تیاری کے عمل میں جن تکنیکی پیچیدگیوں کا سامنا تھا وہ ان کی ٹیم نے دور کر دی ہیں اور پراجیکٹ کمرشل بنیادوں پر لانچ کے لیے بالکل تیار ہے۔ 

پاکستانی سائنسدانوں کا کارنامہ، بھنڈی سے ماحول دوست معیاری فیبرک  کی تیاری
تصویر: Saadeqa Khan/DW

ڈاکٹر محسن کے مطابق کچھ ٹیکسٹائل برانڈز کی طرف سے انہیں اچھا رسپانس ملا ہے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی لوکل برانڈز  کہ توجپ دور رس پائیدار پالیسیوں کے بجائے منافع پر زیادہ ہے۔ مگر بین الاقوامی برانڈز  اوکرا فائبر  کی کمرشل پروڈکشن میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کی ٹیم اس حوالے سے بہت پر جوش ہیں۔ 

مستقبل میں پاکستان کی معیشت پر اس تحقیق کے اثرات کیا ہوں گے؟

ڈاکٹر محسن کے مطابق اس پوری تحقیق کا سہرا یو ای ٹی لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر منصور سرور کے سر ہے، جو پاکستانی پراڈکٹس کو پروموٹ کرنے اور مقامی افراد کے مسائل کو حل کرنے میں انتہائی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر سرور دیگر ٹیم اراکین ڈاکٹر امر اور فائنل ایئر کے طلباء مقدس اقبال، علی اسداللہ اور طلحہ امین کی بھی مسلسل حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ 

مصنوعی بازو تیار کرنے والا پاکستانی اِسٹارٹ اَپ ’بائیونکس‘

ڈاکٹر محسن کا کہنا ہے کہ ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور ایسے میں مقامی ٹیکسٹائل اور فیشن برانڈز کو اوکرا فائبر کو فوقیت دینا چاہیے۔ ان کے خیال میں پہلے مرحلے میں اس سے جینز، ٹراؤزرز، بیڈ شیٹ وغیرہ تیار کی جائیں تو نا صرف ٹیکسٹائل سیکٹر میں ملازمتیں بڑھیں گی بلکہ ملکی معیشت کو سنبھلنے کا موقع بھی ملے گا اور  کچھ ہی عرصے میں پاکستان اوکرا فائبر سے تیار کردہ ملبوسات درآمد کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ 

اس کے ساتھ اوکرا  کا فاضل مواد جو ہر برس جلایا جا رہا ہے، اسے استعمال میں لا کر ماحولیاتی تبدیلیوں کو لگام ڈالنے میں مدد ملے گی۔

ڈاکٹر محسن کا کہنا ہے کہ اگر ان کی ٹیم کو پاکستان ٹیکسٹائل انڈسٹری کی طرف سے تعاون حاصل ہو جائے تو وہ اوکرا فائبر کی تیاری کے عمل کو مزید سہل، سادہ اور منافع بخش بنانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔

کیا زمین کے علاوہ اَنسلادوس پر بھی زندگی کے آثار ممکن ہیں؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں