1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی سرحد سے ملحقہ بھارتی دیہات خالی کرا لیے گئے

صائمہ حیدر
30 ستمبر 2016

بھارت نے پاکستانی سرحد کے قریب رہنےوالے دس ہزار دیہاتیوں کو محفوظ علاقوں میں منتقل کر دیا ہے۔ یہ اقدام سرحد پار مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف کسی بھارتی آپریشن کے جواب میں ممکنہ فوجی کارروائی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2Qm30
Indien Unabhängigkeitstag in Neu-Delhi
بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے سیکیورٹی فورسز کو لائن آف کنٹرول  پر نگرانی بڑھانے کا حکم دیا ہےتصویر: Getty Images/AFP/P. Singh

 

Indien Unabhängigkeitstag in Neu-Delhi
بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے سیکیورٹی فورسز کو لائن آف کنٹرول  پر نگرانی بڑھانے کا حکم دیا ہےتصویر: Getty Images/AFP/P. Singh

بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے وفاقی اور ریاستی سیکیورٹی فورسز کو ریاست جموں و کشمیر کی  تین ہزار تین سو کلو میٹر کی لائن آف کنٹرول  پر نگرانی بڑھانے کا حکم دیا ہے۔ بھارت نے پاکستانی سرحد کے قریب واقع دیہات سے انخلاء اپنے اس بیان کے بعد کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اس نے لائن آف کنٹرول کے پار  پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا گیا ہے۔ بھارتی حکومت کے مطابق اِس آپریشن میں ایسے مشتبہ عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا جو بھارت پر حملوں کی تیاری میں مصروف تھے۔

 جمعرات کے روز بھارتی حکومت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیکس کے غیر معمولی اعلان نے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان جنگ کے امکان کو بڑھا دیا ہے۔ اِس صورتِحال میں کشمیر کے متنازعہ علاقے میں سن 2003  سے جاری جنگ بندی متاثر ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کشمیر پر اختیار کے معاملے پر اب تک دو جنگیں لڑ چکے ہیں۔ دونوں ممالک اس کے ایک ایک حصے پر کنٹرول رکھتے ہیں تاہم دونوں کا دعوی ہے کہ پورے کشمیر کے خطے پر ان کا حق ہے۔

بھارت کے ’سرجیکل اسٹرائیکس‘ کے دعوے کو پاکستانی ذرائع ابلاغ بے بنیاد قرار دے رہے ہیں۔ پاکستانی میڈیا کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کی نوعیت معمولی تھی اور ایسے حملے لائن آف کنٹرول پر معمول کا حصہ ہیں۔

Indien Sicherheitskräfte an der Grenze mit Pakistan
بھارتی حکومت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیکس کے غیر معمولی اعلان نے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان جنگ کے امکان کو بڑھا دیا ہےتصویر: Getty Images/AFP/N. Nanu

 پاکستان کی خارجہ پالیسی کے سربراہ سرتاج عزیز نے جمعے کے روز وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس سے قبل ایک  مقامی ٹیلیویژن چینل ’جیو‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھارت کے جھوٹے ہتھکنڈے ہیں، اگر حقیقت میں ایسا کچھ ہوا تو پاکستانی فوج جواب دینے کے لیے تیار ہے۔

 بھارتی زیر انتظام کشمیر  کے علاقے جموں  کے شمال میں پہاڑی علاقوں تک لائن آف کنٹرول ک قریب واقع سینکڑوں گاؤں خالی کرائے جا رہے ہیں۔ بھارت کے زیرِ کنٹرول جموں وکشمیر کے نائب وزیرِاعلی نرمل سنگھ نے اپنے ایک بیان میں کہا،’’ ہماری بنیادی حکمتِ عملی خواتین اور بچوں کو سرکاری عمارتوں،گیسٹ ہاؤسز اور شادی ہالوں میں منتقل کرنا ہے۔‘‘ بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکریٹری رام مادھو نے انڈین ایکسپریس اخبار میں چھپنے والے اپنے کالم میں لکھا،’’ ان تمام سالوں میں دہشت گردی پاکستان کے لیے سستا سودا رہا ہے، تاہم اب اسے مہنگا بنانے کا وقت آگیا ہے۔‘‘

Kaschmir Srinagar Protest
مودی حکومت کشمیر میں گزشتہ دس ماہ سے جاری مظاہروں کو روکنے کی کوشش میں مصروف ہےتصویر: Reuters/D.Ismail

 دوسری جانب بھارت کے ایک اخبار انڈین ایکسپریس نے آج جمعے کے روز  ملکی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے حوالے سے خبر شائع کی ہے کہ لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فوج کی جانب سے گرفتار کیے گئے بھارتی فوجی کی رہائی کے لیے تمام اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے بھارت کا مؤقف ہے کہ اُس کا فوجی نادانستہ طور پر پاکستانی حدود میں داخل ہوا تھا اور پاکستان کو چاہیے کہ  اسے موجودہ طریقہء کار کے تحت واپس کر دے۔تاہم اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ بھارتی فوجی اہلکار کو پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ مودی حکومت کشمیر میں گزشتہ دس ماہ سے جاری مظاہروں کو روکنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

 بھارت مخالف مظاہروں کا حالیہ سلسلہ رواں برس آٹھ جولائی کو علیحدگی پسند کشمیری تنظیم حزب المجاہدین کے ایک نوجوان کمانڈر برہان وانی کی بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد شروع ہوا تھا۔ اُس وقت سے اب تک کم از کم اسی کشمیری مظاہرین بھارتی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں زخمی ہیں۔