1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی صدر کے اختیارات میں کمی سے متعلق ترمیم

1 اپریل 2010

پاکستانی صدر آصف علی زرداری پانچ اپریل کوپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کررہے ہیں۔ اس سے قبل جمعہ دو اپریل کو آئینی اصلاحات سے متعلق اٹھارویں ترمیم کا مسودہ بحث کے لئے قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/Ml2s
تصویر: AP

اس ترمیم میں صدر سے منتخب حکومت کو تحلیل کرنے اور فوجی سربراہوں کی تقرری جیسے اختیارات واپس لینے کی سفارشات کی گئی ہیں۔

Fahmida Mirza Parlamentspräsidentin in Pakistan
قومی اسمبلی کی سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے ان سفارشات پر اتفاق کو ایک تاریخی واقعہ قرار دیا۔تصویر: AP

آئینی اصلاحاتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر رضا ربانی نے اٹھارویں ترمیم کا مسودہ سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو پیش کرتے ہوئے اسے جمہوری قوتوں کی فتح قرار دیا، '' اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی قائم رکھنے کی کوشش کی ہے اس میں ہم نے ترامیم کو نکال کر کوشش کی ہے کہ آئین کو اصل حالت میں بحال کیا جائے تا کہ ادارے مضبوط اور ایک جمہوری نظام رائج ہو۔''

اس موقع پر پاکستانی قومی اسمبلی کی سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے اصلاحاتی کمیٹی کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہیں جو ہدف سونپا گیا تھا اس کو احسن طریقے سے پایا تکمیل تک پہنچایا گیا ہے،" 31 مارچ ایک تاریخی دن ہے، بالکل اسی طرح جس طرح 1973ء کے آئین کو آج تک کوئی ڈکٹیٹر رد نہیں کر سکا کیونکہ اگر اتفاق رائے سے کوئی قانون یا بل پارلیمنٹ میں لایا جائے گا تو اس کو کوئی بھی آمر تبدیل نہیں کر سکے گا۔''

ادھر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت آئینی اصلاحاتی کمیٹی میں شامل تمام جماعتوں کے قائدین نے اٹھارویں ترمیم کے مسودے کی تیاری پر پوری قوم کو مبارکباد دی ہے۔ مجوزہ آئینی اصلاحات میں اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے حوالے سے اختلاف رکھنے والی جماعت مسلم لیگ نواز کے سیکرٹری اطلاعات احسن اقبال کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے ارکان کی تعداد 6 کی بجائے 7 رکھنے پررضا مندی سے یہ معاملہ بھی طے پا گیا ہے۔ البتہ مسلم لیگ ق نے صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھنے کی مخالفت کی ہے اس بارے میں مسلم لیگ قائد اعظم کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے بتایا، '' ہم نے صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے مخالفت کی ہے اور اس حوالے سے اختلافی قرارداد پیش کر دی گئی ہے اور ہمارا موقف ہے کہ شمالی مغربی سرحدی صوبے کا نام صوبہ سرحد ہونا چاہئے۔''

اٹھارویں ترمیم کے مسودے کی تیاری کے بعد سے اب تک ملکی ذرائع ابلاغ میں بظاہر صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کا معاملہ ہی سب سے نمایاں نظر آ رہا ہے اور اس پر عوامی حلقوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھنے سے لسانیت کو فروغ ملے گا تاہم صوبہ سرحد میں برسر اقتدار عوامی نیشنل پارٹی صوبے کے نام کی تبدیلی کو اپنی تاریخی فتح سے تعبیر کر رہی ہے اور اسی سبب اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے ان سارے تاثرات کو مسترد کر دیا ہے کہ نام کی تبدیلی سے صوبے میں لسانیت کو ہوا ملے گی، '' میں آج پوری قوم کے سامنے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ نام کی تبدیلی کی وجہ سے اس صوبے کی کسی فرد کا کسی بھی قسم کا استحصال نہیں ہوگا۔''

سیاسی مبصرین کے خیال میں سا بق فوجی آمروں کے ادوار میں آئین کے اندر کی گئی ترامیم خصوصاﹰ صدرمملکت کی ذات میں بے پناہ اختیارات کے ارتکاذکے خاتمے کے لئے تیار کی گئی مجوزہ اٹھارویں ترمیم کونہ صرف دو تہائی اکثریت سے باآسانی پارلیمان سے منظور کرا لیا جائے گابلکہ اس کی منظوری میں شامل تمام جماعتوں باا لخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی ساکھ میں بہتری آئی گی۔

رپورٹ : شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت : افسر اعوان