1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی صدر کے استعفے پر بین الاقوامی ردعمل

19 اگست 2008

امریکہ نے مشرف کے استعفے کے بعد کہا ہے کہ امریکہ بدستور اسلام آباد حکومت کے ساتھ اقتصادی، سیاسی اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون کا خواہاں ہے جبکہ بھارت نے کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے یہ کہا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔

https://p.dw.com/p/F0Yz
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشناتصویر: AP

صدر پرویز مشرف کے استعفے پر عالمی رہنما اور مختلف ممالک بدستور اپنا ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ عالمی سلامتی کونسل میں امریکی ترجمان گورڈن جونڈرو نے امریکی صدر کے حوالے سےکہا کہ صدر بُش حکومتِ پاکستان کو درپیش اقتصادی، سیاسی اور سلامتی کے چیلنجوں میں تعاون فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی صدر کے نام پر جاری کئے جانے والے اِس بیان میں بُش کی جانب سے مشرف کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے ایک بیان میں مشرف کو امریکہ کا دوست قرار دیا اور کہا کہ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف دُنیا میں امریکہ کے پر عزم ترین ساتھیوں میں سے ایک تھے۔

افغان صدر حامد کرزئی نے امید ظاہر کی کہ استعفے کے اِس اقدام کے بعد پاکستان میں سولین حکومت مستحکم ہو سکے گی۔ کرزئی کے ترجمان ہمایوں حامد زادہ نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی دونوں ملکوں کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں اور افغان حکومت اِن کے مقابلے کے لئے اشتراکِ عمل جاری رکھنے کا پختہ عزم رکھتی ہے۔

روس نے توقع ظاہر کی ہے کہ مشرف کے استعفے کےنتیجے میں ملک عدم استحکام کا شکار نہیں ہو گا۔ روسی وَزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کئے جانے والے ایک بیان میں اُمید ظاہر کی گئی کہ پاکستانی صدر پرویز مشرف کی اپنے عہدے سے رخصتی اِس اہم ایشیائی ملک کی داخلی سلامتی پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں کرے گی۔

ایرانی حکومت نے اِس یقین کا اظہار کیا کہ پاکستان مشرف کی رخصتی سے اچھے طریقے سے عہدہ برآ ہو سکے گا۔ خبر رساں ادارے اِرنا نے یہ خبر جاری کرتے ہوئے ایرانی وَزارتِ خارجہ کے ترجمان حسن غشگاوی کا حوالہ دیا ہے۔

بڑے ہمسایہ ملک عوامی جمہوریہء چین نے توقع ظاہر کی ہے کہ مشرف کے استعفے کے بعد بھی چین کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلقات قائم رہیں گے۔

برطانیہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ، ملک میں بدعنوانی کے خاتمے اور بھارت کے ساتھ امن عمل کے آغاز جیسے حوالے دے کر مشرف کی خدمات کو اہم قرار دیتے ہوئے سراہا ہے۔

تاہم پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت نے یہ کہہ کر مشرف کے استعفے پر تبصرے سے انکار کر دیا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ تاہم نئی دہلی سے افتخار گیلانی کے بھیجے ہوئے جائزے میں بھارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ استعفےٰ پاک بھارت امن عمل پر منفی اثرات بھی مرتب کر سکتا ہے۔