1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی طالبان چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم

4 دسمبر 2011

پاکستانی فوج کی کارروائیوں کے شکاراورامریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بنتے ہوئے پاکستان میں طالبان کی مسلح تحریک اب سو سے زائد چھوٹے چھوٹےعسکریت پسند گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/13MLT
حکیم اللہ محسود درمیان میںتصویر: picture alliance / dpa

اسلام آباد سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق سلامتی امور کے کئی ماہرین، تجزیہ نگار اور طالبان تحریک سے متاثرہ علاقوں کی کئی قبائلی شخصیات کا خیال ہے کہ پاکستانی طالبان تحریک اب کافی کمزور ہو چکی ہے اور اس کے پاس مالی وسائل بھی مسلسل کم ہوتے جا رہے ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارےAP نے اسلام آباد سے اپنےایک تجزیے میں لکھا ہے کہ پاکستانی طالبان القاعدہ کے حامی ہیں اور ان کو افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب پاکستان کے شمال مغربی حصے کے قبائلی علاقے میں کافی اثرورسوخ حاصل ہے۔

گزشتہ ساڑے چار سال کے دوران پاکستان میں جتنے بھی دھماکے اور خونریزی کے واقعات ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے پیچھے پاکستانی طالبان ہی متحرک اور فعال تھے۔ پاکستانی طالبان نے نے اپنی جو باقائدہ تنطیم قائم کر رکھی ہے وہ کالعدم قرار دی جا چکی ہے اور عام طور پر تحریک طالبان پاکستان یاTTP کہلاتی ہے۔

Superteaser NO FLASH Pakistan Terror Jalaluddin Hakkani Grenzgebiet Afghanistan
پاکستانی طالبان میں انتشار پایا جاتا ہےتصویر: AP

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستانی طالبان تحریک ملک میں امریکہ کی حمایت یافتہ حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کی خواہش رکھتی ہے اور اس کی جگہ ایک سخت گیر اسلام پسند حکومت قائم کرنے کی متمنی ہے۔

پاکستانی طالبان کے بین الاقوامی عزائم بھی ہیں، انہوں نے اس پاکستانی نژاد شہری کو بھی تربیت دی تھی جس نے سن 2010 میں نیو یارک شہر میں ٹائمز اسکوائر میں ایک کار بم حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں یا فاٹا سے متعلق تحقیق کرنے والے ادارے کے ایک سرکردہ ماہر منصور محسود کہتے ہیں،’آج TTP کی قیادت چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ وہ کمزور اور منقسم ہے اور اس کے پاس سرمایہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔‘

AP کے مطابق طالبان میں تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ کے اولین اشارے اُس وقت ملنا شروع ہوئے تھے جب ان کا مقبول لیڈر اور سربراہ بیت اللہ محسود سن 2009 میں ایک ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔ تجزیہ کار منصور محسود کے مطابق بیت اللہ محسود کی موت کے بعد سے طالبان تحریک مسلسل اندرونی مسائل اورانتشار کا شکار رہی ہے۔ TTP کا قیام سن 2007 میں عمل میں آیا تھا اور وہ ایک ایسی تنظیم ہے جس میں چالیس کے قریب مسلح باغی یا عسکریت پسند گروپ شامل ہیں۔

NO FLASH Pakistan Hakimullah Mehsud und Anhänger
پاکستانی طالبان کے ایک رہنما حکیم اللہ محسود اپنے حواریوں کے درمیانتصویر: picture alliance/dpa

ان گروپوں میں القاعدہ کے حامی مسلح گروہ بھی شامل ہیں اور ایسی ممنوعہ عسکریت پسند تنظیمیں بھی جو پنجاب میں قائم کی گئیں تھیں۔ پاکستانی طالبان کی طاقت کا مرکز کہلانے والے قبائلی علاقوں میں سے شمالی اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں۔ منصور محسود کے مطابق شمالی اور جنوبی وزیرستان میں مسلسل ڈرون حملوں اور پاکستانی فوج کے آپریشن کی وجہ سے بھی طالبان تحریک مسلسل کمزور ہونے کی وجہ سے منتشر ہو رہی ہے۔

پاکستانی طالبان کی طاقت کو کم کرنے میں جہاں بار بار کیے جانے والے ہلاکت خیز ڈرون حملوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے وہاں ملکی فوج بھی خاص طرح کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔

دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستانی فوج طالبان کے خلاف اپنے آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کی کوشش ہے کہ طالبان تحریک کو زیادہ سے زیادہ تقسیم کرکے اس پر قابو پایا جائے۔ ایک اعلی پاکستانی سکیورٹی اہلکار کے مطابق ملکی فوج طالبان کے چند گروپوں کے ساتھ معاہدوں تک پہنچنے میں بھی کامیاب رابطہ کاری کر چکی ہے۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں