1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی عدالت کا فیصلہ، جماعتہ الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید رہا

تنویر شہزاد، لاہور / عاطف توقیر2 جون 2009

لاہور ہائی کورٹ نے کالعدم جماعت الدعوٰ ة کے امیر حافظ محمد سعید کی نظر بندی ختم کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے ۔ حافظ محمد سعید کو جماعتہ الدعوة کے دیگر رہنماﺅں کے ہمرا ہ تقریباً چھ ماہ پہلے نظر بند کیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/I2Nu
بھارت نےحافظ محمد سعید پر ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھاتصویر: AP

ممبئی بم دھماکوں کے بعد اقوام متحدہ نے جماعتہ الدعوة پر پابندیاں عائد کر دی تھیں جبکہ بھارت نے حافظ محمد سعید کو ممبئی بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے حوالے سے مورد الزام ٹھہرایا تھا۔

منگل کے روز لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جب حافظ محمد سعید کی نظر بندی کے خلاف دائر کی جانے والی درخواست کی سماعت شروع کی تو اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں جماعتہ الدعوٰة کے کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ عدالتی فیصلے کے بعدانہوں نے عدالتی احاطے میں نعرے بازی کی۔ اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ محمد سعید کے وکیل اے کے ڈوگر کا کہنا تھا کہ حافظ محمد سعید کی رہائی کا فیصلہ پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کا مظہر ہے۔

ان کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ قرار دیا ہے کہ حافظ محمد سعید کی نظر بندی پاکستان کے قانون اور آئین کے مطابق جائز نہیں تھی۔

اس موقع پر جماعتہ الدعوٰ ة کے مرکزی رہنما حافظ عبدالرحمن مکی نے دعویٰ کیا کہ اس عدالتی فیصلے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اب یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ جماعتہ الدعوٰ ة کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں ہے۔ رہائی کے فیصلے کے فوراً بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ سعید نے ممبئی بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار ہونے والے پاکستانی نو جوان اجمل قصاب سے مکمل لا تعلقی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ سوات آپریشن کو درست سمجھتے ہیں اور نہ ہی خود کش حملوں کو جائز تصور کرتے ہیں۔

تازہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ نگار امتیاز عالم نے ریڈیو ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستانی حکومت نے اقوام متحدہ کے فیصلے کے تحت جماعتہ الدعوٰ ة پر پابندی لگائی تھی اور اس تنظیم کے نہ صرف دفاتر سیل کر دئے گئے تھے بلکہ ان کے بینک اکاﺅنٹس کو بھی منجمد کر دیا گیا تھا۔

ان کے مطابق حافظ محمد سعید کو ایک نقص امن ِ عامہ آرڈیننس کے تحت نظر بند کیا گیا تھا جس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک بندہ جس کے خلاف کوئی کیس نہ ہو اور اس سے امن و امان میں خلل پڑنے کا خطرہ ہو تو اسے کچھ ماہ کے لئے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ اب کسی کیس کی عدم موجودگی میں ہائی کورٹ کے پاس حافظ محمد سعید کو رہا کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن موجود نہیں تھا۔ ان کے مطابق اس کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان نے یہ کہا تھا کہ حافظ محمد سعید کا تعلق القاعدہ سے ہے اگر یہ بات درست ہے اور حافظ محمد سعید کے خلاف کوئی کیس موجود ہے تو پھر حکومت کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے اور ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس حوالے سے کیا فیصلہ سناتی ہے۔

امتیاز عالم کے مطابق اس فیصلے کا عالمی طور پر برا اثر پڑے گا اور وہ لوگ جو پاکستان کے خلاف یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ پاکستانی حکومت ایسے عناصر کے خلاف آنکھیں بند کئے ہوئے ہے اور وہ ان لوگوں سے نرمی سے پیش آتی ہے۔ ان لوگوں کو پاکستان کے خلاف شور شرابا کرنے کا موقع ملے گا۔

ان کے مطابق اگرچہ لاہور ہائی کورٹ یہ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہے لیکن بقول ان کے اس فیصلے سے انڈیا میں بھی کوئی اچھا پیغام نہیں گیا ہے۔ ان کے مطابق اس فیصلے کے بعد پاک بھارت جامع مذکرات کو دوبارہ شروع کرنے میں نئی مشکلات حائل ہو سکتی ہے۔ ایک سوال کے جواب امتیاز عالم نے کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ حافظ محمد سعید کی نظر بندی ختم کئے جانے سے ہائی کورٹ نے ان کو ان کے تمام اعمال سے بری الذمہ قرار دے دیا ہے۔