1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

180309 Terror Afghanistan Pakistan

پےٹر فیلپ/ عدنان اسحاق19 مارچ 2009

پاکستانی حکام نے مبینہ امریکی ڈرون حملوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اس بات پر یقین نہیں ہے کہ طالبان یا القاعدہ نیٹ ورک کے جنگجو افغانستان سے منتقل ہو کر پاکستانی شمالی علاقہ جات میں موجود ہیں۔

https://p.dw.com/p/HF8k
پاکستانی شمالی علاقہ جات میں مبینہ امریکی ڈرون حملوں پر سخت ردعمل پایا جاتا ہےتصویر: AP

ایک اخباری رپورٹ کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما کی نئی انتطامیہ پاکستان میں خفیہ میزائل حملوں میں اضافے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ان کےخیال میں افغانستان سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقوں سے عسکریت پسند اور طالبان ڈرون حملوں کے بعد وہاں سے فرار ہ کر اب صوبہ بلوچستان منتقل ہو چکے ہیں۔ امریکہ اس حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہے اور اس سے پاکستانی حکومت کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔

2008 کے موسم گرما میں، اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے ہدایات دیں تھیں کے القائدہ اور طالبان کے خلاف کارروائیوں میں بین الاقوامی سرحدی حدود کا کوئی لحاظ نہ رکھا جائے اور ضرورت پڑنے پر فوجی آپریشن افغان سرحد کی دوسری جانب بھی کیا جا سکتا ہے۔

یقینی طور پر سرحد پار سے مراد پاکستان کا شمالی علاقہ ہے جہاں دہشت گرد پناہ لئے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن کے خیال میں یہ علاقہ امریکی زمینی دستوں کے لئے خطرناک ہے اس لئے امریکی انتظامیہ نے فضائی کارروائی کے ذریعے القائدہ کے اصل اور مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔

اس وقت امریکہ میں صدارتی مہم کا آغاز ہو چکا تھا لیکن اس کے برخلاف کسی نے بھی اس حکمت عملی پر اعتراض نہیں کیا۔ لیکن تمام تراختلافات کے باوجود باراک اوباما نے اس نکتے پرصدر بش کی حمایت کی۔

''اگر ہمارے خفیہ ادارے ہمیں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے بارے میں مصدقہ معلومات فراہم کریں اور صدر مشرف اس پرکوئی ایکشن نہ لیں ، تو پھر ہم کارروائی کرنے پر مجبور ہونگے''.

کئی مہینے گزرجانے کے بعد پرویز مشرف کو زبردستی استعفی دینا پڑ گیا اور ادھر اوباما صدر منتخب ہو گئے۔ اوباما نے اپنے وعدے کے مطابق عراق میں موجود دستوں میں کمی کرنے اور ان میں سے کچھ افغانستان میں تعینات کرنے کا اعلان کیا۔ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے سے قبل اوباما نے ایک انٹرویو میں جنوبی ایشیا کی صورتحال پر کچھ یوں تبصرہ کیا تھا۔

''ہمیں افغانستان کے معاملے کو انفرادی طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ ہمیں اسے ایک علاقائی مسئلہ کے طور پر دیکھنا ہو گا جس میں پاکستان ، بھارت کشمیر اور ایران شامل ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی انتہائی سخت اوربراہ راست سفارت کاری اور مؤثر فوجی کارروائیوں پر مشتمل ہو گی''.

افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے باراک اوباما کی حکمت عملی ابھی بھی غیر واضع ہے۔ افغانستان میں موجود امریکی دستوں کی تعداد میں اضافہ اور گذشتہ برس ممبئی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ خطے میں تشدد کا رجحان ابھی بھی باقی ہے۔