1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

پاکستانی ڈراموں میں کرداروں کی جنس مخالف سے قربت پر پابندی

کوکب جہاں
24 اکتوبر 2021

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے ایک بار پھر پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری، خصوصاً ڈراموں کو معاشرے کے مروجہ اخلاقی دائرے میں لانے کے لیے ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4279P
تصویر: Hum TV

اس ہدایت نامے کے مطابق پاکستانی ٹی وی چینلز سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ڈراموں میں نامناسب لباس، شادی شدہ افراد کا کسی اور سے عشق، جیسے موضوعات کو دکھانے، حتٰی کے میاں بیوی کے ایک دوسرے کو پیار سے چھونے، گلے لگانے، بستر کے مناظر اور محبت بھرے لمحات کو دکھانے سے اجتناب کریں۔

پیمرا کے مطابق، اس کا یہ قدم ان سینکڑوں شکایات کا نتیجہ ہے جو وزیراعظم عمران خان کے سٹیزن پورٹل پر درج کی گئی ہیں یا پیمرا کے اپنے شکایات سیل اور سوشل میڈیا سے وصول ہوئی ہیں۔

پیمرا کے اس اقدام کو پاکستانی ڈرامے سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد نے حیران کن اور مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔

پاکستان میں ٹی وی ڈرامہ پروڈیوسرز کی مرکزی تنظیم یونائیٹڈ پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین حسن ضیاء نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ انتہائی حیران کن قدم ہے۔ ''گزشتہ بیس سالوں سے ہم نے ٹی وی ڈرامہ دیکھنے والوں کو ایک خاص انداز میں تیار کیا ہے، اور ڈرامہ تیار کرنے والے تمام افراد اپنے معاشرے کی ثقافت اور حدود سے بہت ہی اچھی طرح واقف ہیں، اس لیے ٹی وی پر رومانوی مناظر تو ہوتے ہیں، مگر کوئی حد پار نہیں کی جاتی۔''

حسن ضیاء نے مزید کہا کہ یہ خواہ مخواہ کا نوٹس ہے کیونکہ ڈرامہ بنانے والے تمام افراد اس بات کا خیال رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شاید سوشل میڈیا پر ٹرول کرنے والے چند افراد کی وجہ سے پیمرا کو یہ خیال آیا ہے، اور سوال یہ ہے کہ یہ ہمیں کس جانب لے کر جانا چاہ رہے ہیں، یہ حکومت کی پالیسی ہے یا پیمرا کا اپنا کام ہے، مگر اس قدم سے ٹی وی ڈراموں میں گھٹن کا احساس مزید بڑھےگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانیوں کے پاس انٹرٹینمنٹ کے نام پر ایک ڈرامہ ہی بچا ہے اب اس کو بھی تباہ کرنے کے درپے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہمیں 80 کی دہائی میں واپس لےجایا جارہا ہے جبکہ کسی بھی صحت مند معاشرے میں پابندیاں عائد کرنا اچھی بات نہیں ہے۔

اس بارے میں پاکستان کی نامور اداکارہ ثانیہ سعید نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر محبت اور پیار کی زبان برداشت نہیں ہوتی تو اصل مسئلہ سوچ کا ہے اور اسی سوچ کے تحت پھر پیمرا اس قسم کے نوٹس جاری کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ڈرامہ پروڈیوسرز پہلے ہی محتاط رہتے ہیں کہ قربت کے مناظر دکھاتے وقت معاشرتی اور اخلاقی روایات کا خیال رکھا جائے۔ اس کے علاوہ اداکار بھی قربت کے مناظر ریکارڈ کرواتے وقت ہچکچاہٹ کا شکار ہی رہتے ہیں اور جب تک کسی منظر میں ضرورت نہ ہو کسی اداکار کو ایسا کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔

کامیاب ڈرامہ سیریل رقصِ بسمل کی پروڈیوسر شاذیہ وجاہت نے نے کہا،''ہمارے ڈرامے تو پہلے ہی کئی قسم کے سینسر سے گزرتے ہیں اور کسی بھی قسم کا بیہودہ اور جنسی مواد تو دکھایا ہی نہیں جاتا، اور پھر پاکستانی اداکارائیں بھی بہت قربت کے مناظر عکس بند کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتیں، تو ایسے میں اس نوٹس کی ضرورت ہی کیا تھی۔''

شاذیہ وجاہت کے مطابق،'' ہاتھ پکڑنے یا گلے لگانے پر بھی پابندی حیران کن ہے کیونکہ اگر کہانی میں اس منظر کی ضرورت ہے کہ ایک شوہر اپنی پریشان بیوی کو دلاسہ دے رہا ہے تو وہ اس کا ہاتھ ہی پکڑےگا یا گلے لگائےگا، اب اس میں کون سی فحاشی ہے، اوراس طرح کی پابندیاں ہمارے تخلیقی عمل کو بری طرح متاثر کرتی ہیں، ہم آگے جانے کے بجائے مزید پیچھے کی طرف چلے جائیں گے۔''

Pakistan TV Serie
تصویر: Geo TV

ڈراماہ 'گھسی پٹی محبت‘ کے مصنف فصیح باری خان نے ڈی ڈبلیو سے کہا کہ ہمارے ڈرامے پہلے موضوعات کی پابندیوں کی وجہ سے نچلی سطح پر آئے اب رہی سہی کسر یہ 'ایب نارمل‘ اخلاقیات سے جُڑا حکم نامہ پوری کردے گا۔

انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا،''میرا خیال ہے یہ کام شاید موجودہ ملکی صورت حال سے کہیں زیادہ خوفناک اور تشویشناک ہے جس کی وجہ سے حکومت نے انتہائی سنگین حالات کے باوجود لوگوں کے سامنے اسے پیش کیا ہے۔''

مصنف ساجی گُل نے ڈی ڈبلیو سے اس بارے میں کہا،'' پاکستانی ڈرامہ پہلے ہی اس معاشرے کا سینسرڈ ورژن ہے، اگر اس کا موزانہ ہم نیوز چینلز ہی سے کرلیں۔'' انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو معاشی میدان میں بدترین ناکامی کا سامنا ہے اور اب وہ اپنی توجہ صرف ٹی وی اسکرین پر مرکوز رکھنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹی وی ڈرامے میں تشدد جتنا مرضی دکھائیں پیمرا کو مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن محبت دکھانے پر اعتراض اٹھائے جاتے ہیں۔

Pakistan TV Serie
تصویر: ARY Digital

مانی پاکستان کے معروف اداکار اور ٹیلی وژن میزبان ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں پیمرا جیسے اداروں کا قیام اتنا ہی ضروری ہے تو اس میں متعلقہ افراد کا ہونا ضروری ہے جیسے ڈراموں کے شعبے میں اداکاروں، ہدایت کاروں، لکھاریوں اور پروڈیوسرز، تاکہ وہ فن کی باریکیوں کو سمجھتے ہوئے کسی مسئلے کا بہتر حل تلاش کرسکیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پیمرا اور حکومت کی جانب سے ڈراموں پر اس طرح کی 'اخلاقی پابندیاں‘ 80 کے عشرے میں چل گئی تھیں لیکن اب ان کا ان کا اطلاق ناممکن ہے۔

انہوں نے وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری سے درخواست کی کہ وہ پیمرا کی ان ہدیات کا فوری طور نوٹس لیں۔

مانی کے مطابق ٹی وی  ڈرامے پر اس طرح کی پابندیاں یقینا اس میں کام کرنے والے لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں کی اگر کسی ڈرامے میں ایک خاص مقصد یا پیغام کے لیے کسی قسم کا جنسی مواد موجود ہے تو اس میں تیرہ یا اٹھارہ سال کی عمر کی پابندی لگادیں۔

ڈنک جیسے ڈرامے ’می ٹو‘ کو نقصان نہیں پہنچا رہے، نعمان اعجاز