1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: افغان مہاجرين کے لئے ہمدردی کم

6 جولائی 2010

پاکستان سے افغانستان واپس جانے والے افغانوں کی تعداد اس سال، پچھلے سال کے مقابلے ميں دوگنا ہوگئی ہے۔ ليکن اس کی وجہ يہ نہيں کہ افغان صرف اپنے وطن کی مٹی کی کشش کی وجہ سے واپس لوٹ رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/OBM2
تصویر: AP

بہت سے افغان مہاجرين کا کہنا ہے کہ پاکستانی سرکاری افسران کے علاوہ مقامی آبادی نے بھی اُن پر يہ واضح کرديا ہے کہ اب انہيں پاکستان ميں پسند نہيں کيا جاتا اور ان کے لئے مسلسل زيادہ مشکلات پيدا کی جا رہی ہيں۔

Afghanischer Flüchtling an der Grenze
اب بھی کئی لاکھ افغان پاکستان میں آباد ہیںتصویر: AP

دوست محمد نے،جو کچھ عرصہ قبل پشاور ميں افغان سرحد کے قريب واقع شمشالو مہاجر کيمپ ميں مقيم افغانوں کے ليڈر تھے، کہا کہ ہم غريب لوگ ہيں اور بين الاقومی برادری کو ہميں مسائل سے نمٹنے کے لئے اکيلا نہيں چھوڑ دينا چاہئے۔

43 سالہ جميلہ بی بی کا کہنا ہے کہ اسے خوف ہے کہ اس کے بچے بھوکے مر جائيں گے اور وہ جلد ہی اپنی گذر بسر کے لئے بھيک مانگنے پر مجبور ہوجائے گی۔ اس نے بتايا کہ وہ گھريلو ملازمہ کی حيثيت سے کام کر رہی تھی ليکن اب مقامی آبادی افغان عورتوں کو ملازم نہيں رکھ رہی ہے۔

سن 1979ء ميں سوويت جارحيت کے بعد افغان بہت بڑی تعداد ميں پاکستان آگئے تھے۔ پاکستان نے نيم دلی سے پچاس لاکھ سے زائد افغان مہاجرين کو قبول کيا تھا۔ تين سال قبل تک پاکستان ميں افغان مہاجرين کے لئے 24 کيمپ موجود تھے، ليکن عالمی برادری کی مدد ختم ہوجانے کے بعد پاکستانی حکومت نے انہيں بند کر ديا۔

اقوام متحدہ کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق سن 2002 ء سے لے کر اب تک 35 لاکھ سے زيادہ افغان مہاجرين پاکستان سے واپس افغانستان جا چکے ہيں۔ اس سال، اقوام متحدہ کے رضاکارانہ واپسی کے پروگرام کے تحت مزيد ايک لاکھ تيس ہزار افغانوں کی وطن واپسی متوقع ہے۔ يہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے ميں دوگنا ہے۔ پاکستان، افغانستان اور اقوام متحدہ کے درميان ايک سہ فريقی معاہدہ ہے، جس کے تحت پاکستان اندراج شدہ افغان مہاجرين کو سن 2012 تک ملک ميں قيام کی اجازت دينے کا پابند ہے۔ پاکستان کی نيشنل ڈيٹا بيس اور رجسٹريشن اتھارٹی نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرين کی مالی اور تيکنيکی امداد کے ذريعے يہ اعدادوشمار مہيا کئے ہيں کہ سن 2007 ميں پاکستان ميں افغان مہاجرين کی تعداد تقريباً بيس لاکھ تھی۔

Afghanische Flüchtlinge in Belutschistan, Iran
پاکستان میں افغان باشندوں کی زندگی دگرگوں ہےتصویر: AP

اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان ميں اب بھی تيرہ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرين موجود ہيں۔ ان ميں سے اکثر خيبر پختونخواہ ميں رہتے ہيں، جسے پہلے شمال مغربی سرحدی صوبہ کہا جاتا تھا۔ تاہم، افغان مہاجرين پاکستان کے شہروں ميں بھی مقيم ہيں۔ فرنٹير ريجن کے لئے وفاقی وزير نجم الدين خان نے کہا : ’’ہم افغان مہاجرين کو افغانستان واپس جانے پر مجبور نہيں کريں گے۔‘‘

خيبر پختونخواہ کے وزير اطلاعات مياں افتخار حسين نے کہا کہ يہ صحيح نہيں ہے کہ افغانوں سے بدسلوکی کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو افغانوں کی موجودگی کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے ليکن وہ کسی ايسے افغان کے خلاف کارروائی نہيں کرے گی، جس کے پاس پاکستان میں قيام کے درست کاغذات موجود ہوں۔

پاکستان ميں يہ سوچ پائی جاتی ہے کہ افغان بہت کم اجرت پر ملازمت قبول کرليتے ہيں اور اس طرح وہ مقامی لوگوں سے ملازمتيں چھين رہے ہيں۔ تاہم خيبر پختونخواہ کے وزير اطلاعات نے يہ بھی کہا کہ حکومت ایسے افغان باشندوں کو پاکستان ميں ٹھہرنے نہيں دے گی، جو جرائم ميں ملوث ہيں۔

Kinderarbeit im Iran
افغان بچے پاکستان میں کچرے کے ڈھیر سے چیزیں تلاش کر کے روزی کماتے ہیںتصویر: AP

ايک پوليس افسر محمد رفيق نے کہا : ’’ہمارے پاس ایسے شواہد ہيں 45 فيصد جرائم ميں افغان ملوث ہوتے ہيں۔ وہ جرم کر کے افغانستان بھاگ جاتے ہيں، جہاں ان کا کوئی سراغ نہيں مل پاتا۔‘‘

بتايا جاتا ہے کہ پاکستان ميں افغان مہاجرين قتل سے لے کر ڈکيتی تک کی وارداتيں کرتے ہيں۔تاہم بہت سے افغان مہاجرين يہ محسوس کرتے ہيں کہ انہيں کچھ نہ کرنے کے باوجود بھی سزا مل رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سن2007ء ميں مہاجر کيمپ بند ہوجانے کے بعد پوليس کاغذات کے سلسلے ميں انہيں مسلسل تنگ کر رہی ہے۔ زيادہ تر افغان مہاجرين ٹوٹی پھوٹی جھونپڑيوں ميں رہنے اور گذربسر کے لئے جو کام بھی مل جائے وہ کر ليتے ہيں۔ مثلاً رحمت شاہ کا کہنا ہے کہ وہ شبينہ مزدور کے طور پر جو 55 ڈالر ماہانہ کماتا ہے، وہ اس کے کنبے کی ضروريات کے لئے کافی نہيں ہيں اور اس کے بچوں کو سبزياں بيچنا پڑتی ہيں تاکہ کنبے کا خرچ پورا ہوسکے۔

تاہم ان تمام مشکلات کے باوجود بہت سے افغان مہاجرين افغانستان ميں لاقانونيت،بے روزگاری، خراب تعليم اور صحت وعلاج کے ناقص انتظام کی وجہ سے واپس نہيں جانا چاہتے۔

35 سالہ ٹيکسی ڈرائيور جلاون خان کے مطابق: ’’پاکستانی حکومت کو ہم پر رحم کرنا چاہيے۔ ہم جنگ، خشک سالی اور قحط کے کئی برسوں سے تنگ آکر پاکستان آئے تھے۔‘‘

خان کے گھرانے کے کئی افراد افغانستان واپس جاچکے ہيں۔ اس نے بتايا کہ وہ اپنی کمائی کا کچھ حصہ اپنے آبائی صوبے خوست ميں مقيم اپنی ماں کو بھيجتا ہے۔ اس نے کہا کہ پاکستان ميں حالات دشوار تر ہوتے جارہے ہيں اور اسے اپنے بيوی بچوں کو دو وقت کی روٹی مہيا کرنے ميں بھی مشکلات درپيش ہيں ليکن پھر بھی وہ اس لئے پشاور ميں مقيم ہے تاکہ اس کا لڑکا اسکول جا سکے۔

رپورٹ : شہاب احمد صدیقی

ادارت : عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں