1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور اوباما

کشور مصطفیٰ / ادارت: عابد حسین21 جون 2009

امریکی صدر باراک اوباما منصب صدارت سنبھالنے کے بعد مسلسل اور معاملات میں دلچسپی لینے کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے اندر پیدا شدہ انتہاپسندی اور پھر اُس کے ساتھ جڑی عسکریت پسندی پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/IVeO
اوباما کے ہمراہ پاکستانی اور افغان صدورتصویر: AP

امریکی صدر باراک اوباما نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ انہیں اِس امر کا یقین ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو تنہا کر دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے اور امریکہ بحران زدہ ملک پاکستان میں اپنی فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اوباما نے مزید کہا کہ وہ اس بات پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں کہ پاکستانی حکومت اور عوام،تمام تر اختلافات کو جمہوری عمل کی مدد سے دُور کر لیں گے۔

اوباما کا یہ بیان اِتوار کو ڈان نیوز ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں دیا۔ امریکی انتظامیہ، جس نے جنوبی ایشیا کی دوسری ایٹمی طاقت پاکستان کو القائدہ کے خلاف جنگ میں ایک جامعہ حکمت عملی وضح کرنے میں تمام تر مدد اور حمایت فراہم کی ہے، نے سوات آپریشن کا خیر مقدم کیا ہے۔ اوباما نے اپنے انٹرویومیں ایک بار پھر انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں اسلام آباد حکومت اور فوج کے ساتھ مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

Obama zu Afghanistan
پاکستان اور افغانستان بارے جامع حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے اوباما کے ساتھ وزیر دفاع رابرٹ گیٹس اور وزیر خارجہ ہیلری کلنٹنتصویر: AP

پاکستان کے قبائلی عِلاقوں میں امریکی میزائل حملوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں امریکی صدر کہنا تھا" میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ امریکہ اپنی فوج پاکستان بھیجنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کر رہا نہ ہی کوئی ارادہ رکھتا ہے۔ پاکستان اور اس کی فوج ملکی سلامتی سے متعلق معاملات سے خود نمٹنے کے لئے نبردآزما ہے" ۔ اوباما نے کہا کہ اس بارے میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ عسکریت پسندوں کی طرف سے پاکستان میں انتشار اور عدم استحکام پھیلانے کی کوششوں کا سخت جواب دیا جائے گا اور ایسی صورتحال میں نہ تو اسلام آباد حکومت نہ ہی پاکستانی فوج خاموش بیٹھے گی۔

Pakistan General Ashfaq Pervaiz mit soldaten im Swat Tal
سوات میں فوجی آپریشن کے جوانوں سے ملاقات کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے کمانڈر جنرل اشفاق پرویز کیانیتصویر: Abdul Sabooh

افغانستان میں سرگرم عمل سی آئی اے اور امریکی فوج کی طرف سے کئے جانے والے ڈرون حملے واشنگٹن اور اسلام آباد کے مابین کشیدگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان رائے عامہ کے سامنے اِن حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں علاقائی خود مختاری کے اُصُولوں کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے، جس سے عوام کے اندرپائے جانے والی ناراضگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہِ اگست سن 2008ء سے ابتک اس نوعیت کے 40 حملوں میں 400 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

امریکی صدر نے اپنی تقریر میں بانئ پاکستان محمد علی جناح کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنے مسائل پر خود قابو پا سکتا ہے۔ اوباما کا کہنا تھا" محمد علی جناح کے وقت سے ہی پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ملک اپنے مسائل سے خود نبٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ ملک ان مسائل پر قابو نہ پاسکے۔

دریں اثناء پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے جنوبی وزیرستان میں 37 انتہاء پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ فوجی ذرائع کے مطابق عسکریت پسندوں نے جنوبی وزیرستان کے قصبے سرواکی کی طرف جانے والی مین سڑک کو بلاک کرنے کی کوشش کی جس کے رد عمل کے طور پر فوج نے انتہا پسندوں پر حملہ کرکے انہیں ہلاک کر دیا۔ پہلی بار فوج کی طرف سے جنوبی وزیرستان کے آپریشن میں عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی ہے۔

پاکستان شمال مغربی سوات وادی میں تقریباً دو ماہ سے عسکریت پسندی کے خلاف جاری جنگ کا رخ اب بدل کر افغانستان سے ملحقہ اپنے سرحدی علاقوں کی طرف کر رہا ہے۔ جو یقیناً مشکل محاذ ہے