1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلا ف ورزیوں میں اضافہ

31 مارچ 2021

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس انسانی حقوق کی صورت حال اچھی نہیں رہی، دنیا میں لوگوں کی بڑی تعداد کو 'ظالمانہ صورت حال میں مشکلات برداشت کرنی پڑیں۔‘

https://p.dw.com/p/3rPJE
USA China I Antony Blinken
تصویر: Frederic J. Brown/AP/picture alliance

امریکی محکمہ خارجہ نے سال 2020 میں دنیا میں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے منگل کے روز پیش کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ غیرقانونی اور یک طرفہ گرفتاریاں اور ماورائے عدالت انصاف، قتل اور گمشدگیاں پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں اہم مسائل رہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی یہ رپورٹ امریکی کانگریس کی منظوری سے مرتب کی جاتی ہے۔ اس میں دنیا کے ان ملکوں کی انسانی حقوق کی صورت حال پر تبصرہ ہوتا جنہیں امریکا امداد فراہم کرتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق سے متعلق رجحانات مسلسل غلط سمت کی طرف جارہے ہیں۔ سن 2020 میں انسانی حقوق کی صورت حال اچھی نہیں رہی اور دنیا میں لوگوں کی بڑی تعداد کو ”ظالمانہ صورت حال میں مشکلات برداشت کرنی پڑیں۔"  بلنکن کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں کچھ ”مختلف مسائل" پیدا کیے ہیں اور بعض حکومتوں نے ”وبا کے بحران کو حقوق پر پابندیوں کے جواز اور آمرانہ حکومتوں کو مضبوط کرنے" کے لیے استعمال کیا۔

انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے زہنیت تبدیل کرنا ہوگی، مزاری

انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں بھارت او رپاکستان دونوں برابر

رپورٹ کے مطابق اذیت اور بے رحمی کے واقعات، غیر انسانی اور اہانت آمیز سلوک اور سزائیں دینا بھارت اور پاکستان دونوں میں مشترک رہیں۔ یہی صورت حال یک طرفہ قید، جیل میں انتہائی سختی اور جان لیوا سلوک، سیاسی اختلافات کی بنیاد پر لوگوں کو قید میں ڈال دینے اور لوگوں کی پرائیویسی میں غیر قانونی حکومتی مداخلت کے حوالے سے بھی ہے۔

امریکی وزارت خارجہ نے رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں ہی ملکوں میں اظہار رائے کی آزادی، پریس اور انٹرنیٹ پر سخت پابندیاں، صحافیوں کے خلاف تشدد، انہیں غیر قانونی طور پر گرفتار کرنے اور غائب کر دینے، سینسر شپ اور ویب سائٹوں کو بلاک کر دینے کا سلسلہ جاری رہا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکو ں کی حکومتوں نے لوگوں کے پرامن اجتماعات، تنظیموں کی آزادی جیسے حقوق میں مداخلت کی جن میں غیر سرکاری تنظیموں پر بندشیں عائد کرنا بھی شامل ہے۔  بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی حکومتوں نے مذہبی آزادی اور آزادنہ نقل و حرکت پر بھی سخت بندشیں عائد کیں۔  بیوروکریسی میں بدعنوانی، خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی تفتیش اور احتساب کا فقدان دونو ں ملکوں میں مشترک ہے۔

کشمیر کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، پرویز امروز

کشمیر کی صورت حال

امریکی وزارت خارجہ نے اپنی رپورٹ میں سن 2020 کے ابتدائی چھ ماہ میں جموں و کشمیر کے واقعات کے حوالے سے کہا ہے کہ ماورائے انصاف قتل کے 32 واقعات درج کیے گئے۔ عسکریت پسندوں کے حملوں اور ان کے خلاف جوابی کارروائیوں کے نتیجے میں 63 عام شہری، 89 سکیورٹی فورسز کے جوانوں اور 284 عسکریت پسند  ہلاک ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دیے جانے کے بعد بھارتی حکام نے مقامی سیاست دنوں کو مقدمہ چلائے بغیر قید میں رکھنے کے لیے پبلک سیفٹی قانون کا استعمال کیا اور بعض لوگوں کو اس شرط پر رہائی نصیب ہوئی کہ وہ آئندہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں بھارتی انتظامیہ نے پبلک سیفٹی ایکٹ قانون کا استعمال کیا جو حکام کو”کسی شخص کو کسی الزام یا عدالتی کارروائی کے بغیر دو برس تک قید میں رکھنے اور ان کے کسی عزیز کو بھی ملاقات کی اجازت نہ دینے کااختیار دیتا ہے۔"

چین میں جبری گمشدگیاں

چین، ایران، روس کی صورت حال

امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں چین، ایران، روس، میانمار اور بیلاروس سمیت متعدد ملکوں میں انسانی حقوق کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے چین کے صوبہ سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے انسانی حقوق کی پامالیوں کا ذکر کیا اور صورت حال کو نسل کشی کے مترادف قرار دیا۔

انہوں نے صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے شام کے باشندوں سے کیے جانے والے سلوک اور یمن کی جنگ سے پیدا ہونے والی انسانی حقوق کی تباہ کن صورت حال کا ذکر بھی کیا۔

امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں روس کی حکومت کی جانب سے اپوزیشن لیڈر الیکسی ناوالنی جیسے سیاسی مخالفین سمیت پر امن مظاہرین کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات، وینیزویلا کے لیڈر نکولس میڈورو اور ان کے اہم ساتھیوں کی بدعنوانی، کیوبا، نکارا گوا، ترکمانستان اور زمبابوے کی حکومتوں کی جانب سے سیاسی تقریروں پر لگائی گئی پابندیاں کا ذکر بھی تفصیل سے کیا گیا ہے۔

اپنے گھر میں بھی کام کرنے کی ضرورت

امریکی وزیرخارجہ بلنکن کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ نے انسانی حقوق کو اپنی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح بنایا ہے۔ انہوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق ”اپنے بلند ترین معیارات اور اصولوں" پر پورا اترنے کے لیے امریکا کو ”اپنے گھر" یعنی اندرون ملک بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ”ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے اور ہر وہ طریقہ استعمال کرنے کی ضرورت ہے، جس سے دنیا کو زیادہ پر امن اور انصاف پر مبنی بنایا جا سکے۔"

ج ا/ ص ز  (اے پی، روئٹرز)

’پاکستان اور بھارت کشمیر تک اقوام متحدہ کو رسائی دیں‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں