1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور بھارت لچک پر آمادہ

1 مئی 2010

سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان اور بھارت اپنے اپنے اب تک کے مؤقف میں لچک پر آمادہ ہوگئے ہیں اور ان دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین تعطل کے شکار جامع مذاکرات کی جلد بحالی کا امکان ہے۔

https://p.dw.com/p/NBuw
تصویر: AP

بھارتی خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق حالیہ پیش رفت پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کے مابین کٹھمنڈو میں ہوئی ملاقات کا نتیجہ ہے۔

ان ذرائع کے بقول پاک بھارت مذاکرات میں اب زیادہ دھیان دہشت گردی کے مسئلے پر دیا جائے گا جبکہ دریائی پانیوں کی تقسیم کے مسئلے کو علیحدہ سے زیر بحث لایا جائے گا۔ 2004 ء میں ان دونوں ممالک کے مابین Composite Dialogue یا لغوی طور پر مخلوط مذاکرات کا آغاز ہوا تھا، جس میں مسئلہ کشمیر، سرکریک، وولر بیراج، دہشت گردی، سمگلنگ ، معاشی تعاون اور باہمی اعتماد سازی کے لئے مختلف اقدامات سمیت کئی دیگر امور بھی شامل تھے۔ تاہم یہ سلسلہ 2008 ء کے ممبئی حملوں کے بعد سے اب تک منقطع ہے۔

Indien Pakistan Gespräche
بھارتی خارجہ سیکریٹری نروپما راؤ کی پاکستانی سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر سے رواں سال فروری میں نئی دہلی میں ملاقات ہوئی تھیتصویر: AP

جمعہ کو اس حوالے سے دونوں ملکوں کی خارجہ امور کی وزارتوں کی جانب سے بھی مثبت اشارے دئے گئے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ فریقین جملہ تنازعات پر بات چیت کے لئے تیار ہیں۔

’’اگر تمام امور پر بات ہوتی ہے، تو پھر چاہے آپ اسے مخلوط مذاکرات کا نام دیں، چاہے جامع مذاکرات کا یا کچھ اور، اصل بات نیت کی ہے اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ نیت ٹھیک ہے۔‘‘

شاہ محمود قریشی کے بقول جیسے ہی بھارتی پارلیمان میں سات مئی کو ملکی بجٹ پر بحث مکمل ہوگی، وہ اپنے بھارتی ہم منصب ایس ایم کرشنا سے رابطہ کر کے مذاکرات کی تاریخ طے کریں گے۔

ادھر نئی دہلی میں بھارتی سیکریٹری خارجہ نروپما راؤ نے کہا کہ مذاکرت کی بحالی کی راہ میں موضوعات کی ترتیب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس ڈائیلاگ کی بحالی کے لئے بھارت مسلسل یہ شرط رکھ رہا تھا کہ دہشت گردی کے معاملے کو سرفہرست رکھا جائے اور دونوں ممالک جملہ تنازعات کے مرحلہ وار حل کی جانب بڑھیں۔

Pakistans Außenminister Shah Mehmood Qureshi auf PK zum Tod des Talibanführers Mehsud
قریشی نے صحافیوں کو بتایا کہ چاہے آپ اسے مخلوط مذاکرات کا نام دیں، چاہے جامع مذاکرات کا یا کچھ اور، اصل بات نیت کی ہے اور نیت صاف ہےتصویر: AP

پاکستانی وزیر خارجہ کے بقول دونوں ممالک کے درمیان پہلے ہی انسداد دہشت گردی سے متعلق مشترکہ میکینزم موجود ہے اور اب دیکھا جائے گا کہ اس میں مزید کیا بہتری لائی جا سکتی ہے۔ ان کے بقول جن معاملات پر ماضی میں بات چیت ہوئی تھی، ان پر مستقل میں بھی بات ہوگی۔

’’دہشت گردی پورے خطے کا مسئلہ ہے، افغانستان اور بھارت سمیت، اور یہ کسی ایک ملک تک محدود نہیں۔‘‘ قریشی نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکہ سمیت کوئی بھی تیسرا فریق محض مشورے دے سکتا ہے، وہ ان دونوں ہمسایہ ایٹمی طاقتوں کو مسائل کا حل تلاش کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔

یوسف رضا گیلانی اور من موہن سنگھ کی ملاقات کے سلسلے میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم ایسے تعلقات کے خواہاں ہیں کہ خود وہ یا وزیر اعظم گیلانی کسی بھی وقت ٹیلی فون اٹھا کر آپس میں کسی بھی مسئلے پر آسانی سے بات چیت کر سکیں۔ ’’چونکہ کانگریس کو گزشتہ سال کے انتخابات میں اچھی خاصی کامیابی حاصل ہوئی تھی، اسی لئے کانگریس پارٹی اب پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کہیں زیادہ پر اعتماد ہے۔‘‘

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں