1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور بھارت میں انگریزی فکشن کی روایت

امجد علی30 ستمبر 2008

پاکستان اور بھارت میں انگریزی زبان میں کتابیں لکھنے کی روایت زیادہ پرانی نہیں۔ بھارت کے بعد اب زیادہ سے زیادہ پاکستانی ادیبوں کی انگریزی زبان کی تصانیف بھی ترجمہ ہو کر دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچ رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/FRcs
ڈوئچے ویلے بون میں حال ہی میں انگریزی زبان کے معروف بھارتی ادیب امیتاو گھوش کے ساتھ شام منائی گئی

سرزمین ہندوستان پر انگریزوں کی آمد کا سلسلہ تو مغل دَورِ حکومت کے عروج ہی سے شروع ہو گیا تھا لیکن جیسے جیسے مقامی باشندوں اور انگریزوں کے درمیان روابط بڑھے، ویسے ویسے انگریزی زبان سیکھنے والے ہندوستانیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔

پہلی انگریزی کتاب، جو کسی ہندوستانی نے لکھی، وہ تھی: Travels of Dean Mahomet۔ اِس سفرنامے کے مصنف تھے، سرزمینِ بنگال کے شیخ دین محمد اور یہ کتاب سن 1793ء میں انگلینڈ سے شائع ہوئی تھی۔

Buchcover Bapsi Sidhwa: The Pakistani Bride
’’دا پاکستانی برائیڈ‘‘، پاکستان کی پارسی ادیبہ بپسی سدھوا کی کتاب کا ٹائیٹل

جدید دَور میں سب سے نمایاں نام سلمان رُشدی کا ہے، جو پیدا بھارت میں ہوئے لیکن آباد برطانیہ میں ہیں۔ 80ء کے عشرے کے اوائل میں اُن کے ناول ’’مِڈ نائِٹس چلڈرن‘‘ نے انڈین فکشن میں ایک نئے رجحان کی خبر دی اور بُکر پرائز سمیت کئی بڑے ادبی انعام اِس کتاب کے حصے میں آئے۔

اُن کے بعد سے اب تک کوئی ایک سو سے زیادہ بھارتی ادیب اپنی انگریزی تخلیقات کے ساتھ عالمی شہرت حاصل کر چکے ہیں، جن میں بھارتی مکھرجی، وکرم سیٹھ، ششی تھرُور، انیتا ڈیسائی، کرن ڈیسائی اور ارُون دھتی رَوئے کے ساتھ ساتھ امیتاو گھوش بھی شامل ہیں، جو اِن دنوں جرمنی آئے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں یہاں بون میں ڈوئچے ویلے کے اندر اُن کے ساتھ ایک شام منائی گئی۔

اِس موقع پر اُنہوں نے تھوماس بیرتھ لائن کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں وضاحت کی کہ اپنی تازہ ترین کتاب "The Sea of Poppeys" میں اُنہوں نے ایشیا میں نوآبادیاتی دَور کا کیوں انتخاب کیا ہے:’’ میری کتاب اُنیسویں صدی کے حالات بیان کرتی ہے، جب پہلی پہلی مرتبہ ہندوستانی باشندوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر ماریشیس کا رُخ کیا۔ مجھے دلچسپی اِس بات میں ہے کہ اِن تارکینِ وطن کے تجربات کیا رہے۔ اِس موضوع پر لکھا تبھی جا سکتا ہے، جب آپ اُس نوآبادیاتی دَور کے سارے پس منظر کو سمجھیں۔ یہی اُس دَور کے ہندوستان کی تاریخی حقیقت تھی۔‘‘

Mohsin Hamid
لاہور میں پیدا ہونے والے محسن حامد جرمن شہر کولون کے ایک ادبی میلے میں

امیتاو گھوش نے بتایا کہ اُنہوں نے اپنے ناول میں سن1838ء کے حالات بیان کئے ہیں اور یہ وہ دَور تھا، جب مغربی دُنیا آزاد تجارتی منڈیوں پر بڑے جارحانہ انداز میں زور دے رہی تھی اور آج کل عالمگیریت کے لئے چلائی جانے والی پُر زور مہم کو دیکھا جائے تو بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال نظر آ رہی ہے۔ امیتاو گھوش جرمن دارالحکومت برلن میں جاری اُس بین الاقوامی ادبی میلے میں شرکت کے لئے جرمنی آئے ہوئے ہیں، جس کا مرکزی موضوع اِس بار افریقہ ہے اور جو اِس سال آٹھویں مرتبہ منعقد ہو رہا ہے۔

بھارت کے انگریزی لکھنے والے ادیبوں کو بین الاقوامی سطح پر جو شہرت ملی، اُس سے انگریزی فکشن تخلیق کرنے والے پاکستانی ادیب ایک طویل عرصے تک محروم رہے ہیں۔ "The Murder of Aziz Khan" انگریزی زبان کا وہ پہلا جدید ناول تھا، جو ساٹھ کے عشرے میں ذوالفقار گھوش کی صورت میں ایک پاکستانی نژاد ادیب کے قلم سے نکلا تھا۔

Schriftsteller Tariq Ali
برطانیہ میں مقیم پاکستانی ادیب طارِق علی بھی انگریزی فکشن کا ایک بڑا نام ہیں۔ اِس تصویر میں وہ جرمن ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں شریک ہیں۔تصویر: dpa Zentralbild

بعد ازاں عالمی شہرت پانے والے پاکستانی ادیبوں میں نمایاں نام ستر سالہ بپسی سِدھوا کا ہے، جنہوں نے بھارتی فلم ساز دیپا مہتا کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ اُن کے 1991ء کے ناول ’’کریکنگ انڈیا‘‘ پر دیپا مہتا نے 1998ء میں ’’اَرتھ‘‘ کے نام سے فلم بنائی تو دو ہزار چھ میں بپسی سدھوا نے مہتا کی فلم ’’واٹر‘ پر ایک ناول لکھا، ’’واٹر، ایک ناول‘‘ کے عنوان سے۔

چند سال پہلے ڈوئچے ویلے کے اُجوَل بھٹا چاریہ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں بپسی سدھوا نے اِس موضوع پر بھی اظہارِ خیال کیا کہ بھارت اور پاکستان میں تخلیق ہونے والے ادب میں اُنہیں کیا فرق نظر آتا ہے:’’دونوں ملک اب کچھ مختلف ہو گئے ہیں۔ اگر آپ ہندوستان میں ہوں تو کچھ فرق نظر آتا ہے۔ پاکستان میں ہوں تو کچھ فرق نظر آتا ہے۔ دو الگ ملک ہو گئے ہیں۔ وہ ایک سی بات نہیں۔ پھر بھی ایک قسم کا بائنڈنگ تو رہا ہی ہے۔ بہت رویے ایک قسم کے ہوتے ہیں۔ لٹریچر میں میرے خیال میں اِس وجہ سے فرق نہیں آیا ہے۔‘‘

1943ء میں لاہور میں جنم لینے والے طارق علی ایک طویل عرصے سے برطانوی دارالحکومت لندن میں آباد ہیں۔ وہ کٹر سوشلسٹ ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے سخت مخالف ہیں۔ ا یک عرصے تک صحافت کی دُنیا میں کامیابی سے سرگرمِ عمل رہنے کے بعد وہ انگریزی فکشن میں بھی ایک جانا پہچانا نام بن چکے ہیں۔ جرمنی سے اُن کا ایک خاص تعلق ہے اور وہ یہاں مختلف ادبی میلوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہتے ہیں۔

Buchcover Mohammed Hanif: A Case of Exploding Mangoes
پاکستان کے آں جہانی فوجی حکمران ضیاء الحق، جن کی پُر اَسرار موت پر محمد حنیف نے انگریزی زبان میں اپنے پہلے ناول کا موضوع بنایا ہے

تاہم گذشتہ کچھ برسوں سے بڑی تعداد میں نوجوان پاکستانی ادیب ایسی تخلیقات سامنے لا رہے ہیں، جنہیں بین الاقوامی اسٹیج پر بھی زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔ اِن میں "Without Dreams" لکھنے والی شاہ بانو بلگرامی اور"The Reluctant Fundamentalist" کے ساتھ حیران کر دینے والے محسن حامد کے ساتھ ساتھ کاملہ شمسی، ندیم اسلم، عامر حسین اور عظمےٰ اسلم خان سمیت ایسے کئی نوجوان شامل ہیں، جو اپنی اپنی عمر کی تیسری دہائی میں ہیں۔

ایسے پاکستانی ادیبوں میں ایک تازہ تازہ وارِد ہونے والا نام محمد حنیف کا ہے، جن کا ناول "A Case of Exploring Mangoes" اِس سال مشہور ادیب اعزاز بُکر پرائز کی اُمیداور کتابوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ اِس ناول میں اُنہوں نے پاکستان کے فوجی حکمران ضیاء الحق کی 1988ء میں ایک طیارے کی تباہی کے دوران پُر اَسرار موت کو موضوع بنایا ہے۔

اِس واقعے کے بیس سال بعد اُنہیں اِس موضوع پر کچھ لکھنے کا خیال کیوں آیا، اِس کی وضاحت کرتے ہوئے محمد حنیف نے ہمیں بتایا:’’خیال تو مجھے کافی عرصے سے تھا لیکن ناول لکھنے میں کافی ٹائم لگتا ہے تو مَیں اِس پر کوئی تین چار سال سے سوچ رہا تھا۔ آہستہ آہستہ اور بنتے بنتے ہی بنتی ہے کہانی تو اِس لئے اب لکھا گیا اور دوسری وجہ یہ کہ مَیں ایک فُل ٹائم جرنلسٹ بھی ہوں اور آپ بھی جرنلسٹ ہیں تو آپ کو پتہ ہے کہ اِس طرح کی زندگی میں ٹائم زیادہ نہیں ملتا۔‘‘

Der pakistanische Schriftsteller Mohammed Hanif
پاکستانی ادیب محمد حنیف اِس سال اگست میں ایڈنبرا کے ایک ادبی میلے میںتصویر: picture alliance/dpa

بنیادی طور پر اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے محمد حنیف آج کل کراچی میں ہیں۔ اُنہوں نے مزید بتایا:’’مَیں کتاب لکھنا چاہتا تھا، ناول لکھنا چاہتا تھا اور کوئی مرڈر مسٹری ٹائپ کی چیز، جو مجھے پسند ہے، اِس طرح کی چیز لکھنا چاہتا تھا لیکن میرے پاس کوئی آئیڈیا نہیں تھا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ یہ جنرل ضیاء کے جہاز کا جو کریش تھا، یہ ایک بہت بڑی مرڈر مسٹری ہے، ہمارے زمانے کی، جسے بہت سے صحافی کبھی حل نہیں کر سکے ہیں۔ تو مَیں نے سوچا کہ کیوں نہ اِسے فکشن میں حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اب آیا مَیں نے یہ گتھی سلجھائی ہے یا اور ہی اُلجھا دی ہے، یہ تو پڑھنے والے ہی بتا سکتے ہیں۔‘‘

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی اردو سروس سے وابستہ پاکستانی ادیب محمد حنیف نے مزید بتایا کہ اُن کی کتاب ’’اے کیس آف ایکسپلورنگ مینگوز‘‘ کو اِن دنوں خوب پذیرائی مل رہی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ وقت ملتے ہی وہ اپنی اگلی کتاب پر کام کرنا شروع کر دیں گے۔