1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، بھارت اور افغانستان کے دنشوروں اور اراکین پارلیمان کی کانفرنس

9 جون 2009

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بھارت، پاکستان اور افغانستان کے اراکین پارلیمان، دانشوروں اور سیکیورٹی امور کے ماہرین کی ایک تین روزہ اہم میٹنگ ہوئی۔

https://p.dw.com/p/I6Nm
پاکستان اور بھارت کے درمیان ممبئی حملوں کے بعد سے مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہےتصویر: AP

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بھارت، پاکستان اور افغانستان کے اراکین پارلیمان، دانشوروں اور سیکیورٹی امور کے ماہرین کی ایک تین روزہ اہم میٹنگ ہوئی۔

اس کانفرنس میں خطے میں امن و سلامتی کویقنی بنانے کے لئے سیکورٹی، توانائی اور پانی جیسے امور پر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ئی کے بجائے باہمی تعاون پر زور دیا گیا۔ کانفرنس کا اہتمام جرمن ادارے ہےنرخ بول فاونڈیشن کے تعاون سے دہلی پالیسی گروپ نے کیا تھا۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کا ایک میدان افغانستان بھی بنا ہوا ہے۔ لیکن اس مخاصمت کو ختم کرنے اور افغانستان کی تعمیر نو اور آبادکاری اور افغانستان کی سلامتی کے حوالے سے ان دونوں ملکوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس کرانے کے لئے ان ملکوں کی ماہرین اور اعلی افسران نے یہاں ایک بند کمرے میں تبادلہ خیال کیا۔

پاکستان کو افغانستان میں بھارت کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے خاصی تشویش ہے لیکن بھارتی افسران نے ان خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قندھار میں صرف آٹھ بھارتی سفارت کار کام کرتے ہیں جو کسی بھی صورت میں پاکستان کے لئے خطرہ نہیں بن سکتے۔ انہوں نے تاہم اعتراف کیا کہ وہاں آٹھ سو بھارتی بھی کام کرتے ہیں لیکن وضاحت کی کہ ان کا بھارت کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ اقوام متحدہ اور عالمی بینک جیسے دیگر اداروں کے ملازم کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ افغانستان کی قومی اسمبلی کی رکن شکریہ بارک زئی نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کوقونصل خانے کے سلسلے میں اپنی غلط فہمیاں دور کرنی چاہئیں۔

’’پاکستان کی طرف سے ہم پر یہ دباو پڑ رہا ہے کہ آخر انڈیا وہاں کیوں اپنا قونصل خانہ قائم کررہا ہے۔کیوں انڈیا کے پروجیکٹ ہیں اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ ہم انڈیا کے اچھے دوست ہیں اسی طرح بھارت کو بھی پاکستان کی غلط فہمیوں کودور کرناچاہئے۔‘‘

میٹنگ میں شرکاء نے بھارت، پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں سے سارک کے علاوہ ایک علیحدہ سہ فریقی میکانزم بنانے اور افغانستان میں سیکیورٹی اورترقی میں تعاون کے سلسلے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کے خاطر دو طرفہ جامع مذاکرات کا عمل شرو ع کرنے کا مشورہ دیا۔ شرکاء نے تینوں ملکوں کے سیکیورٹی اداروں کے مابین وسیع تر تعلقات قائم کرنے، ہتھیاروں کی اسمگلنگ کو روکنے اور سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لئے کام کرنے کی بھی اپیل کی۔

جب ہم نے پاکستانی سینیٹ کے سینئر رکن افراسیاب خٹک سے پوچھا کہ کیا اس سلسلے میں ان ملکوں کے مابین اشتراک کی کوئی گنجائش ہے تو انہوں نے کہا : ’’ اس سلسلے میں اشتراک کی زبردست گنجائش ہے اوران ملکوں کے درمیان ایک ایسی فضاپیدا کرنے کی ضرورت ہے جس سے باہمی خوف میں کمی ہو اور وہ اپنے ملک کے اندر کے مسائل سے زیادہ بہتر طریقے سے نمٹ سکیں۔ اس سلسلے میں بھارت اور پاکستان کی درمیان مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستان اور افغانستان کے مابین اعتماد سازی کے لئے نئے اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘

افراسیاب خٹک نے مزیدکہا کہ اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں دور ہوجائیں تو نہ صر ف افغانستان بلکہ پورے خطے کی ترقی کی راہ کھل سکتی ہے۔

میٹنگ میں شرکاء نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بھارت کا متعدد یورپی اور لاطینی امریکی ملکو ں کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلقات ہیں لیکن پڑوسی ملکوں کے ساتھ ایسے تعلقات نہیں ہیں۔ افغان رہنما شکریہ بارک زئی نے کہا کہ افغانستان کے مسئلے کو محدود کرکے دیکھنے کے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ متعدد افغان مندوبین نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنے باہمی اختلافات کو دور کریں کیو ں کہ اس کا اثر افغانستان کی سلامتی پر پڑتا ہے۔ شکریہ بارک زئی نے کہا کہ اگر بھارت اورپاکستان کے مسائل حل ہوجائیں تو افغانستان کے بہت سارے مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں۔

شرکاء نے تینوں ملکوں کے مشترکہ ثقافتی علامتوں کو فرو غ دینے، ویزا قوانین کو سہل بنانے اور کم ترقی یافتہ علاقوں کی نشاندہی کرکے وہاں سرمایہ کاری کرنے پر زور دیا۔ شرکاء نے خان عبدالغفار خان یعنی بادشاہ خان کی شخصیت اور ان کی روایات کومشترکہ ثقافتی علامت کے طور پر اپنانے کی بات بھی کہی۔

رپورٹ : افتخار گیلانی

ادارت : عاطف توقیر