1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان زلزلوں کی زد پر؟

رفعت سعید، کراچی30 اکتوبر 2008

گزشتہ آٹھ برسوں میں دنیا میں دس بڑے زلزلے آئے جن میں مجموعی طور پر چار لاکھ پنتالیس ہزار آٹھ سو نناوے افراد لقمہ اجل بنے۔

https://p.dw.com/p/FkjY
پاکستان کے شمالی علاقوں میں آنے تین سال قبل آنے والے زلزلے میں ایک شخص بے بسی سے اپنے تباہ مکان کو دیکھ رہا ہےتصویر: AP

بلوچستان 1935کے بعد چار مرتبہ تباہ کن زلزلوں کا شکلار ہوا۔ 31 مئی 1935 کو کوئٹہ مکمل طور پر تباہ ہا گیا تھا اور تقریبا تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 1962 میں قلات، ہرنائی اور کوئٹہ سمیت دیگر قریبی علاقوں میں آنے والا زلزلہ دو سو افراد کے لئے جان لیوا ثابت ہوا۔

Erdbeben
پاکستان کا زیادہ تر حصہ فالٹ لائن کے قریب واقع ہےتصویر: National Geophysical Data Center

1997میں بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آنے والے زلزلے نے سینکڑوں انسانی جانیں نگل لیں۔ 26 جنوری2001 میںبھارت کی مغربی ریاستوں میں پچیس ہزار لوگ زلزلے میں مارے گئے۔ 26دسمبر2003 کو ایران کے شہر بام، میں زلزلے سے اکتیس ہزار آٹھ سو چوراسی افراد ہلاک اور اٹھارہ ہزار ذخمی ہوئے۔ 26 دسمبر 2004 کو سماترا کے ساحل کے قریب سمندر کی تہہ میں آنے والا زلزلہ سونامی کا باعث بنا اور بحر ہند کے متعدد ممالک کے دو لاکھ بیس ہزار افراد مارے گئے۔

8 اکتوبر2005 کو پاکستان کے شمالی علاقوں اور کشمیر میںزلزلے میں تقریبا پچھہتر ہزار افراد لقمہ اجل بنےاور تیس لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ 27مارچ2006 کو انڈونیشیا میں زلزلے میں چھ ہزار افراد ہلاک اور پندرہ لاکھ بے گھر ہوئے۔ 26مارچ2007 کو انڈونیشیا میں ہی سماترا جزیرے پر آنے والا زلزلہ ستر افراد کی ہلاکت کا باعث بنا۔ 3فروری2008 کو کانگو اور روانڈا میں پنتالیس ہزار افراد زلزلے میں مارے گئے۔12مئی 2008 کو چین کے صوبے سیچوان میں زلزلے میں ستاسی ہزار افراد کی ہلاکت کا باعث بنا۔

Erdbeben in Kaschmir
کشمیر کے علاقے میں زلزلے میں تباہ ہونے والی ایک عمارتتصویر: dpa

ارضیات کے ماہرین کے مطابق پاکستان کا دو تہائی رقبہ، زلزلے سے پیدا ہونے والی فالٹ لائن پرہےجہاں کسی بھی وقت زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ فالٹ لائن کو نظر انداز کرتے ہوئے شہروں کی تعمیرات کسی بہت بڑے انسانی المیے کا باعث بن سکتی ہے۔

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے سیسمک نیٹ ورک کے ڈائریکٹر زاہد رفیع کے مطابق متحرک فالٹ لائنز کو دیکھتے ہوئے ملک کو زلزلے کے اعتبار سے انیس زونز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ سات ایسے زون ہیں جہاں کسی بھی وقت شدید زلزلہ آ سکتا ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک زون میں شمالی علاقے، جنوبی ساحل مکران، کوئٹہ ریجن اور کشمیر کے اکثر علاقے شامل ہیں۔

Freies Bildformat: Erdbeben: Islamabad
اسلام آباد کی عمارت مارگلہ ٹاور کا ایک حصہ تین سال قبل زلزلے میں تباہ ہو گیا تھاتصویر: ap

ان کا کہنا تھا کہ ان زونز میں آنے والے بڑے شہروں میں کراچی، پشاور، ایبٹ آباد، کوئٹہ، گلگت اور چترال شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کم خطرناک زونز میں اسلام آباداور سالٹ رینج کے علاقے آتے ہیں۔ پاکستان میں صرف بالائی سندھ اور وسطی پنجاب کے علاقے خطرے سے محفوظ ہیں۔ زاہد رفیع کا کہنا ہے کہ پاکستان کوہ ہندوکش کے پہڑی سلسلے کے قریب ہے جہاں ہر وقت زلزلے کے جھٹکے آتے ہیں، اس لئے کم یا درمیانی شدت کا زلزلہ پاکسانی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے شمال مغربی علاقوں میں کسی بھی وقت آسکتا ہے۔

Erdbeben Opfer in Kaschmir Pakistan Zeltstadt
تین سال قبل آنے والے زلزلے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے تھےتصویر: AP

بڑے شہر خاص طور پر کراچی فالٹ لائن کے بہت قریب ہے، کراچی سمیت دیگر بڑے شہروں میں بلند و بالا عمارتیں زلزلے سے محفوظ نہیں ہیں اور نہ ہی تعمیرات کرتے وقت زلزلے کے خدشے کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان زمین کے جس حصے پر واقع ہے وہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آج ایک بڑا زلزلہ آیا ہے تو پھر نہیں آئے گا بلکہ یہاں کسی بھی وقت شدید زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے جا نے کا امکان رہتا ہے۔