1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: لاپتہ افرادکی بازیابی کا کمیشن لاپتہ

10 اگست 2011

پاکستان میں سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے بعد چھ ہفتے سے زائد کا وقت گزر جانے کے باوجود حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کی تشکیل مکمل نہیں کر سکی ہے۔

https://p.dw.com/p/12E6R
پاکستانی سپریم کورٹ، اسلام آباد
پاکستانی سپریم کورٹ، اسلام آبادتصویر: Abdul Sabooh

لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم دو رکنی کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) فضل الرحٰمن کو 2 ماہ قبل الیکشن کمیشن کا رکن تعینات کر دیا گیا تھا۔ ان کی الیکشن کمیشن میں تعیناتی کے بعد سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ان کی خالی نشست کو جلد پُر کرے تا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کمیشن اپنا کام جاری رکھ سکے۔

پاکستان میں مبینہ طور پر خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے افراد کی رہائی کے لیے سرگرم تنظیم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے کہ منتخب جمہوری حکومت نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے نہ صرف کوئی قانون سازی نہیں کی بلکہ کمیشن کی تشکیل کے بارے میں بھی بے حسی کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ایسے کمیشن بنائے جا رہے ہیں، جن کے سربراہ غائب ہیں۔ پتہ نہیں کتنے مقدمات ہیں۔ تین تین مہینے سے انتظار میں ہیں کہ کب ہماری باری آئے، کب کمیشن میں ہمارا کیس لگے گا۔ چار صوبے ہیں، فاٹا ہے، کشمیر کا علاقہ ہے، ایک جج کس طرح ہینڈل کر سکتا ہے۔ لوگوں کی باری ہی نہیں آ رہی، لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے‘۔

چند سال پہلے کی اس تصویر میں آمنہ جنجوعہ پاکستانی سیاسی قائدین کے ساتھ بات چیت کر رہی ہیں
چند سال پہلے کی اس تصویر میں آمنہ جنجوعہ پاکستانی سیاسی قائدین کے ساتھ بات چیت کر رہی ہیںتصویر: Abdul Sabooh

آمنہ مسعود کا کہنا ہے کہ انہوں نے مزید 28 ایسے افراد کے ناموں کی ایک فہرست بھی عدالت میں جمع کرائی ہے، جنہیں مبینہ طور پر خفیہ ایجنسیوں نے اغوا کیا ہے۔ آمنہ مسعود کا کہنا ہے کہ یہ بات اور بھی تشویشناک ہے کہ ایجنسیاں اب بھی لوگوں کو غائب کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’لگاتار ہر سماعت کے بعد مَیں 10 سے لے کر 25 تک نئے مقدمات آگے پیش کر رہی ہوں کیونکہ لوگ لگا تار اغوا ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ رک نہیں رہا تو ان کی تعداد کیسے ایک جیسی رہ سکتی ہے‘۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے کے آغا نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت ایک ماہ میں کمیشن کی تشکیل مکمل کر لے گی۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 138 افراد لاپتہ ہیں، جن کی تلاش کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے کالعدم مذہبی تنظیم حزب التحریر کے مبینہ طور پر خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے 5 ارکان سے متعلق مقدمے کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ اس مقدمے کی گزشتہ سماعت کے موقع پر عدالت نے ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ تاہم بدھ کے روز ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس خود تو عدالت میں پیش نہ ہوئے البتہ ان کے نمائندوں نے عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ تنظیم کے نمائندے ان کے پاس نہیں ہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل طارق جہانگیری کا کہنا تھا کہ انہوں نے عدالت میں واضح طور پر کہا ہے کہ اگر ایجنسیوں پر اغوا کا الزام لگانے والوں کے پاس کوئی ثبوت ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے۔ عدالت اس مقدمے کا فیصلہ جمعے کے روز سنائے گی۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں