1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مبہم قوانین، عدم شفافیت ڈیجیٹل حقوق کے لیے بڑے خطرات

قرةالعین زمان
1 اگست 2019

انٹرنیٹ پر آزادی اظہار کو دبانے کے لیے غیر شفاف قوانین کے ذریعے پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ اور معلومات تک رسائی کے قوانین پر کام جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/3N8dz
DWA DW Akademie speakup barometer
تصویر: DW

 

  •      ایک حالیہ قانون کے تحت انٹرنیٹ پر  نگرانی اور سنسر شپ عائد کر کر دی گئی ہے لیکن جرائم کی کوئی واضح تعریف نہیں کی گئی۔

  •      انٹرنیٹ سے متعلق قوانین کا اطلاق  غیر شفاف اور بےضابطہ ہے اور یہ قوانین صارفین کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

  •      بڑے پیمانے پر ڈیٹا کی چوری کے واقعات پیش آنے کے باوجود ڈیٹا کے تحفظ کے لیے قوانین موجود نہیں ہیں۔

  •      آن لائن ہراسگی اور  'ٹرول آرمیز‘ آن لائن اظہار آزادی کے لیے خطرہ ہیں۔

2018ء کےپہلے چھ ماہ کے دوران پاکستان کی جانب سے  دنیا بھر میں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک کی انتظامیہ کو مواد ہٹانے کی درخواستیں کی گئیں۔ حالیہ مہینوں کے دوران ٹوئٹر انتظامیہ نے اپنے بین الاقوامی صارفین اور انسانی حقوق کے مقامی کارکنوں کو آگاہ کیا کہ ان کی ٹویٹس نے پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے جب ایک معروف قانون دان نے یہ دریافت کیا کہ ان کی کون سی ٹویٹ غیر قانونی تھی؟ تو اس کے جواب میں پاکستانی وزیر اطلاعات نے انکار کیا  کہ ان کی حکومت نے کوئی شکایت درج کرائی ہے ۔

ملک میں 2016ء میں  متعارف کرایا  جانے والا الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا قانون پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو کسی بھی ایسے اظہار رائے   کو 'ہٹانے‘ یا  'بلاک‘ کر دینے یا 'بلاک کر دینے کی ہدایت جاری کرنے‘ کا مکمل اختیار دیتا ہے، جسے وہ  اسلام کی عظمت، پاکستان کی سلامتی اور دفاع، امن عامہ، توہین عدالت، اخلاقیات اور احترام کے منافی، اور  کسی بھی ریاستی ادارے کے خلاف سمجھے۔ اس قانون سازی کے ذریعے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو کسی بھی صارف کےخلاف کاروائی کے لیے مکمل اختیارات دے دیے گئے ہیں۔

جو کام پارلیمنٹ یا عدلیہ کے انجام دینے کا ہے، اسے ایک ریگولیٹری اتھارٹی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، جو بغیر کسی بلاک شدہ ویب سائٹس کی ایسی کھلی فہرست یا عام طریقہ کار سے ہٹ کر کام کر رہی ہے، جس کے بارے میں عوام کو بھی علم ہو۔ صحافی اور میڈیا کی ترقی کے لیے کام کرنے والی ایک کارکن صدف خان کہتی ہیں، ''یہ ریگولیٹری  اتھارٹی پارلیمان کو رپورٹ نہیں کرتی حالانکہ ایسا کرنا ضروری ہے۔‘‘

ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک کارکن فریحہ عزیز کہتی ہیں، ''پاکستان میں سائبر کرائمز کی تحقیقات کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)کی جانب سے صحافیوں کو دھمکی آمیز فون کالیں کی گئی ہیں، جن میں انہیں سوشل میڈیا پرفوج مخالف  پراپیگنڈا کے لیے مورد الزام ٹھہرایا گیا۔‘‘ ملک کی طاقت ور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا کام تشدد اور دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنا ہے لیکن اسے بھی آن لائن قانونی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔

2017ء میں فوج کے خلاف ایک 'منظم مہم‘ کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر جو گرفتاریاں کی گئیں، ان کے ذریعے ایک مخالف سیاسی جماعت کے کارکنوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

بعض مبہم قوانین کو دیگر اور زیادہ خطرناک جرائم کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے، جیسا کہ توہین مذہب اور دہشت گردی۔ صدف خان کے مطابق، ''توہین مذہب کے قوانین ذاتی اور تشریح طلب ہیں‘‘ اور ''یہ قوانین اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو کمزور کر دیتے ہیں۔‘‘ دسمبر 2018ء میں دو مسیحی بھائیوں کو توہین مذہب کے قوانین کی مبینہ آن لائن خلاف ورزی پر سزائے موت سنا دی گئی۔ یہ اپنی نوعیت کا  پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل 2017ء میں شیعہ اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو ایک قانون نافذ کرنے والے ادارے کے خفیہ اہلکار کے ساتھ فیس بک پر بحث کے دوران توہین مذہب کا مرتکب ہونے پرموت کی سزا سنا دی گئی۔ حکومتی اداروں نے  بڑے پیمانے پر  ٹیکسٹ میسجز بھیجے اور اخبارات میں اشتہاری مہمیں چلائیں، جن میں عوام کو سوشل میڈیا پر توہین مذہب کرنے والوں کے حوالے سے چوکس رہنے  اور ان کے بارے میں متعلقہ حکومتی اداروں کو آگاہ کرنے کے لیے کہا گیا۔ یہ صورتحال مارچ 2017ء میں ایک ایسے عدالتی حکم کے بعد پیدا ہوئی، جس میں ریاست کی ہر وقت چوکس اور نگران رہنے کی سوچ کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔

اس کے چند ماہ بعد یونیورسٹی طلبہ کے ایک گروہ نے فیس بک پر توہین مذہب کا مرتکب ہونے کےجھوٹے الزامات لگا کر اپنے ایک ساتھی طالب علم کو ڈنڈے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اکتوبر 2018ء میں حزب اختلاف کے ایک رہنما پر پہلے توہین عدالت کا الزام لگایا گیا اور بعد میں اس کے خلاف مقدمے میں دہشت گردی سے متعلق دفعات بھی شامل کر دی گئیں۔

فریحہ عزیز کے مطابق، ''اسے  قانون کے غلط استعمال کے طور پر  دیکھا جا سکتا ہے، گرفتاری کو یقینی بنانے  کے لیے۔‘‘

آن لائن ہراسگی اور صنفی بنیاد پر بھی نگرانی

مختلف سیاسی جماعتوں کے حامی جو ایک مخصوص نقطہ نظر کے فروغ کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے 'ٹرول آرمیز‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں ان ٹرولز کا استعمال اپنا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے کرتی ہیں۔ یہ ٹرولز اکثر اوقات اپنےسیاسی مخالفین اور صحافیوں کے خلاف نازیبا گفتگو اور دھمکی آمیز رویہ بھی اپنا لیتے ہیں۔ یہ ٹرولز خریدے بھی جا تے ہیں۔

اس کے علاوہ 2017ء میں پیش آنے والے ایک واقعے میں چار آن لائن بلاگرز  کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی نے انہیں اغوا کر لیا تھا۔ اس کے بعد ان بلاگرز کو ایک نفرت انگیز آن لائن مہم کا نشانہ بھی بنایا۔ اس مہم میں جعلی تصاویر کا استعمال کر کے ان بلاگرز پر توہین مذہب کے الزمات بھی لگائے گئے۔

پاکستان میں خواتین صحافیوں کو خاص طور پر آن لائن صنفی امتیاز، کڑی نگرانی اور جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے رجعت پسند معاشرے میں خواتین کو عمومی طور پر آن لائن بلیک میلنگ اور ذاتی راز افشا کر دیے جانے کا خطرہ رہتا ہے۔

ایک غیر سرکاری  تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والی چالیس فیصدخواتین کو آن لائن ہراسگی کا نشانہ بنایا گیا۔ ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ  کے لیے کام کرنے والی ایک کارکن نگہت داد کے مطابق، ''مرد صارفین کے مقابلے میں خواتین کو آن لائن زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین پر حملے ان کی صنف کو ہدف بنا کر کیے جاتے ہیں۔ اگر کسی خاتون کا ذاتی ڈیٹا چوری ہو جائے، تو اسے زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘

فریحہ عزیز کے مطابق آن لائن جرائم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے راستے بھی محدود ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''انٹرنیٹ کے بارے میں قوانین کا اطلاق شفاف طریقے سے نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کے عدالتی نظام میں انصاف کا حصول ایک طویل اور مہنگا عمل ہے۔‘‘

اس صورت حال کے نتیجے میں آن لائن جرائم کا نشانہ بننے والے افراد خصوصاﹰ خواتین مقدمات درج کرانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ صدف خان کے مطابق، ''خواتین کے لیےآن لائن ہراسگی کے خلاف کوئی مقدمہ درج کرانا خطرات سے خالی نہیں۔ خواتین کی طرف سے کارروائی کی صورت میں مرد ملزمان انہی خواتین کے خلاف ہتک عزت کے مقدمات دائر کر دیتے ہیں۔‘‘

شہریوں کے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے قانونی وسائل کی کمی

شہریوں کے لیے صرف سنسرشپ ہی ان کے حقوق کے حوالے سے تشویش کی واحد وجہ نہیں ہے۔ فروری 2019ء تک پاکستان میں صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ پاکستان میں  یومیہ کرائے پر گاڑیاں مہیا کرنے والی ایک آن لائن سروس کریم کے علاوہ ملک کے تقریباﹰ تمام بینکوں کے صارفین کا ڈیٹا بھی چوری کیا جا چکا ہے۔ نگہت داد کے مطابق وہ صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے مجوزہ قانون سازی کی کوششوں سے باخبر ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''یہ قوانین صرف نجی شعبے تک محدود ہیں اور سرکاری ادارے ان کے دائرہ اثر سے باہر ہیں۔ ڈیٹا کے تحفظ سے متعلق قوانین کے تحت عام افراد ایک دوسرے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں لیکن کسی فرد کی جانب سے کسی ادارے کے خلاف شکایت کا اس مسودے میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ مثال کے طور پر نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور سیف سٹی پروجیکٹ ایسے ادارے ہیں، جنہیں شہریوں کے ذاتی ڈیٹا تک براہ راست رسائی حاصل ہے۔‘‘ اس کے باوجود 2017 ء میں کیے گئے ایک سائبر حملے کے نتیجے میں صوبہ پنجاب میں زمینوں کے ریکارڈ کی آن لائن سروس معطل ہو گئی تھی۔

پاکستان میں تمام شہریوں کے بائیو میٹرک ڈیٹا کا ریکارڈ موجود ہے۔ یہ ڈیٹا ان کے موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس سے منسلک ہے۔ بہت سے نجی اداروں کے پاس بھی قانونی طور پر صارفین کے ڈیٹا کی فائلیں بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔ الیکٹرانک کرائمز کے نئے قانون کے تحت انٹرنیٹ خدمات مہیا کرنے والی کمپنیوں کے لیے

کسی بھی صارف کی انٹرنیٹ پر سرگرمیوں کا ریکارڈ ایک سال تک رکھنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اس ڈیٹا تک رسائی یا نگرانی کے لیے عدالت سے پیشگی اجازت لینا لازمی ہے۔

پاکستان اوپن گورنمنٹ پارٹنرشپ پروجیکٹ کا دستخط کنندہ ملک ہے مگر اس بارے میں ابھی تک منصوبہ بندی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ متعدد سرکاری دفاتر اوپن ڈیٹا تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان کے کچھ حصوں میں معلومات تک رسائی کے قوانین نافذ کیے گئے ہیں جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں ان پر کام جاری ہے۔ سرکاری اداروں سے معلومات کے حصول کے لیے درخواست دائر کرنا اب بھی ایک کٹھن عمل ہے۔ فریحہ عزیز کے مطابق، ''آپ کسی حد تک چند معلومات جمع کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ لیکن آپ کو ہمیشہ وہ سب کچھ نہیں ملتا، جس کی آپ کو تلاش ہوتی ہے۔‘‘

پاکستان میں انٹرنیٹ سے متعلق غیر جانبداری کے قوانین موجود نہیں ہیں۔ ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں شہریوں کو آن لائن ہراسگی کے خلاف قانونی امداد مہیا کرنے کے علاوہ اس بارے میں تحقیق اور آگہی کی مہم بھی چلاتی ہیں۔ تاہم ان تنظیموں کا اثر و رسوخ محدود ہے اور ایسا کوئی باقاعدہ طریقہ کار موجود نہیں، جس کے تحت وہ حکومت کے ساتھ بات چیت کر سکیں۔ دوسری جانب بد عنوانی کے واقعات اور بے قاعدگیوں کی نشاندہی کرنے والے 'وسل بلؤرز‘ کے تحفظ کے لیے بھی بہت ہی کم حفاظتی اقدامات موجود ہیں۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

صدف خان: صحافی اور میڈیا کی ترقی کے لیے سرگرم کارکن

#speakup barometer Pakistan l Sadaf Khan
تصویر: Qurratulain Zaman

''جب کسی ویب سائٹ کو بلاک کر دیا جائے گا، تو اس کے صارف کو کیسے معلوم ہو گا کہ وہ کن معلومات سے بے خبر ہے اور یہ کہ وہ کس طرح کوئی وی پی این (ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک) استعمال کر کے اس ویب سائٹ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؟ قانون کے تحت آن لائن مواد کے خلاف سرکاری پابندی کی صورت میں اس کے خالق تیس دن کے اندر اندر اپیل کر سکتے ہیں۔ لیکن جب آن لائن مواد پر پابندی عائد کی جاتی ہے، تو اس سے صرف اس مواد کے خالق کے ہی نہیں بلکہ ناظرین، سامعین اور قارئین کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

فریحہ عزیز: صحافی اور شریک بانی، ڈیجیٹل رائٹس گروپ 'بولو بھی‘

Farieha Aziz
تصویر: Privat

''انسداد دہشت گردی اور سائبر جرائم کی روک تھام کے لیےکام کرنے والے اہلکار تفتیشی صحافیوں کو دھمکی آمیز فون کالیں کر کے تفتیش کے لیے حاضر ہونے کا کہتے ہیں۔ ان صحافیوں کو آگا ہ کیا جاتا ہے کہ فوج مخالف پراپیگنڈا کی وجہ سے ان کے خلاف تفتیش کی جا رہی ہے۔ صحافیوں کو ان کے آلات کار یعنی لیپ ٹاپ کمپیوٹرز، کمپیوٹر ہارڈ ڈسکس وغیرہ بھی ہمراہ لانے کے لیے کہا جاتا ہے، جو خاصا ہراساں کر دینے والا عمل ہوتا ہے۔ اگر کوئی اپنے وکیل کو ہمراہ لے جائے، تو اس سے متعلقہ صحافی کو کچھ مدد تو مل جاتی ہے لیکن ہر کسی کو فوری طور پر کوئی وکیل بھی میسر نہیں ہوتا۔ ریاستی اداروں کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کے الزامات پر گرفتاریوں کے علاوہ قید کی سزائیں بھی سنائی جاچکی ہیں۔‘‘

نگہت داد: ڈائریکٹر، 'ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن‘

Pakistan Nighat Daad Freedom Award
تصویر: flicker/Atlantic Council

''پاکستان میں ڈیجیٹل سلامتی سے متعلق آگہی کم ہے۔ صحافیوں کے ڈیٹا کا تحفظ ان کے اداروں کی پالیسیوں سے جڑا ہے اور یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ صحافیوں کے ڈیجیٹل تحفظ کے لیے نہ تو کوئی آگہی پائی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی ارادہ۔‘‘

سفارشات

انٹرنیٹ سے متعلق قوانین کے اطلاق میں شفافیت

آزادانہ ڈیجیٹل اظہار رائے پر پابندی دراصل اظہار رائے کے دیگر ذرائع کو قابل تعزیر جرم بنانے کے مترادف ہے۔ حکومت اور دیگر فریقوں کو چاہیے کہ وہ اظہار رائے کو آسان بنانے پر توجہ دیں اور ہر قسم کی پابندیوں کی واضح نشاندہی کی جانا چاہیے۔

صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ سے متعلق قوانین

پاکستان میں سرکاری اداروں اور نجی کمپنیوں کے پاس صارفین کے ڈیٹا کے انبار لگےہوئے ہیں۔ تاہم اس ڈیٹا کے تحفط کے لیے ضروری قانون سازی موجود نہیں۔ ماہرین کے مطابق ایسے تمام ادارے، جن کی تحویل میں صارفین کا ڈیٹا موجود ہے، ان کے لیے احتساب کا ایک کڑا نظام ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے یہ پتہ بھی چلایا جانا چاہیے کہ ایسے ادارے اس ڈیٹا کو کس کس طرح استعمال کر رہے ہیں اور اس کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

اوپن گورننس اور اوپن ڈیٹا کے لیے اقدامات ضروری

پاکستانی حکومت کو اوپن گورننس اور اوپن ڈیٹا کو فروغ دینے کے لیے عالمی اداروں کی شراکت داری سے شروع کیے گئے اقدامات میں شرکت کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو ایسا طریقہ کار وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے، جس کے تحت وہ مقامی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر سکے۔