1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں افغان مہاجرین کے قیام کی مدت میں توسیع

عبد الستار، اسلام آباد9 ستمبر 2016

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے آج افغان مہاجرین کے قیام میں مارچ دوہزار سترہ تک توسیع کر دی ہے۔ کچھ مہینے قبل ایسی اطلاعات تھیں کہ ان مہاجرین کو دسمبر دو ہزارسولہ تک ملک سے واپس جانے کا کہا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1JzKN
Pakistan Afghanistan Flüchtlinge kehren zurück
افغان مہاجرین کے مسئلے پر پاکستان اور افغانستان کے مابین حالیہ برسوں میں کشیدگی رہی ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed

پاکستانی ذرائع ابلاغ میں یہ تاثرعام ہے کہ جنگ زدہ افغانستان میں امن و امان کی صورتِ حال انتہائی نا گفتہ بہ ہے تاہم یو این ایچ سی آرکی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال جولائی تک ایک لاکھ افغان مہاجرین پاکستان سے واپس اپنے ملک گئے ہیں۔ اس سے کئی تجزیہ نگار یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ افغانستان کی حالت غالباﹰ اتنی بری بھی نہیں جتنا اسے پاکستانی میڈیا پر پیش کیا جاتا ہے۔ افغان مہاجرین کے مسئلے پر پاکستان اور افغانستان کے مابین حالیہ برسوں میں کشیدگی رہی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بھی اس مسئلے پر گرما گرم مباحثے ہوئے ہیں۔ معروف سیاست دان محمود خان اچکزئی کے ایک حالیہ بیان نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی تھی، جس میں انہوں نے افغان مہاجرین کو کے پی کے میں آکر رہنے کی دعوت دی تھی اور یہ کہا تھا کہ تاریخی طور پر یہ صوبہ افغانستان کا حصہ ہے۔


پاکستان میں پختون قوم پرست افغان مہاجرین کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں لیکن تجزیہ نگاروں کے خیال میں ان مہاجرین کی آمد کی وجہ سے پاکستان کی معیشت اور معاشرت پر بہت گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اس مسئلے پر بات چیت کرتے ہوئے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر امان میمن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر آیا۔ وہ نہ صرف خود ہتھیار لائے بلکہ کراچی جیسے بڑےشہر میں جب مختلف قومیتوں کے درمیان تصادم کی صورت حال پیدا ہوئی تو ان کو بھی ہتھیار کی فراہمی افغان مہاجرین نے ہی کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے کراچی، میرپور خاص، حیدرآباد سمیت پاکستان کے کئی شہروں میں جائیدادیں خریدیں۔ افغان مہاجرین کے آنے سے مقامی سرمایہ داروں کو یقیناًفائدہ ہوا کیونکہ ان کوسستے داموں مزدور میسر آ گئے لیکن ساتھ ہی مقامی مزدورکی اجرت میں کمی نے یہاں نئے تنازعات کو جنم دیا کیونکہ افغان پناہ گزینوں کے آنے سے مقامی مزدوروں کے لئے روزگار کے مواقع کم ہو گئے۔‘‘

Russland Waffe Kalaschnikow-Modell AK-47
ایک پاکستانی تجزیہ کار کے مطابق افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر آیاتصویر: picture-alliance/dpa

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اِن مہاجرین کی باعزت واپسی ہونی چاہیئے اور جو باقی رہ جائیں انہیں مہاجرین کے کارڈز جاری کئے جانے چاہیئں۔ ایران نے بھی اِن مہاجرین کو پناہ دی تھی لیکن وہاں ان کی آمد سے مقامی مزدور اتنا متاثر نہیں ہوئے جتنا کہ پاکستان میں۔ ایرانی حکومت نے اِن کو کیمپوں تک محدود کیا اور صرف ضرورت پڑنے پر اُن کو کام کرنے کی اجازت دی۔ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیئے تھا۔‘‘

Pakistan Afghanistan Flüchtlinge kehren zurück
یو این ایچ سی آرکی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال جولائی تک ایک لاکھ افغان مہاجرین پاکستان سے واپس اپنے ملک گئے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed

پختون قوم پرست رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ افغان مہاجرین کے حوالے سے پائے جانے والے اس تاثر کو رد کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں زیادہ ترافغان مہاجرین محنت مشقت کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ہیروئن اور کلاشنکوف افغان مہاجرین لے کر آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تحفہ ہمارے نام نہاد مرد مومن ضیاء الحق اور ان کے رفقاء کار کا ہے جنہیں امریکی آشیر باد حاصل رہی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بین الاقوامی خفیہ ایجنسیوں نے ہیروئن بیچ کر افغانستان کا جہاد لڑا۔ ان مہاجرین کو یہاں زبردستی لایا گیا تاکہ دنیا کو دکھایا جاسکے کہ افغانستان کی انقلابی حکومت افغان عوام پر کتنا ظلم کر رہی ہے۔ ہمارے لوگوں نے افغان مہاجرین اور افغان جہاد کے نام پر نہ صرف مال بنایا بلکہ اپنے دفاع کو بھی مضبوط کیا۔ آپ کے پاس ایٹم بم بنانے کے پیسے ایسے ہی تو نہیں آگئے۔ یہ افغان جہاد اور اس کی وجہ سے ملنے والی امداد تھی۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں