1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں امریکی شہریوں کے مقدمے کا فیصلہ متوقع

23 جون 2010

آج ایک پاکستانی عدالت کی جانب دہشت گردی کے شبے میں گرفتار پانچ امریکی شہریوں کے مقدمے کا فیصلہ اگلے 24 گھنٹوں میں متوقع ہے۔ وکیل صفائی ملزمان کی رہائی کے حوالے سے پر امید ہیں۔

https://p.dw.com/p/O0oQ
تصویر: picture-alliance / Creasource

پاکستان میں دہشت گردی کے شبے میں گرفتار پانچ امریکی شہریوں کے مقدمے کے وکیل صفائی حسن کچیلا نے بتایا ہےکہ مقدمے کی کارروائی مکمل ہو چکی ہے اور جج نے کہا ہے کہ وہ کیس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد جلد فیصلہ سنا دیا جائےگا۔ حسن کچیلا نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ عدالت ان کے مؤکلوں کو رہا کر دے گی۔

دوسری جانب وکیل استغاثہ ندیم اکرم چیمہ کا کہنا ہے کہ عدالت نے اگر ملزمان کو بری کیا تو اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائےگی۔ ان پانچ امریکی شہریوں کو دہشت گردی کے شبے میں پاکستانی شہر سرگودھا سے گزشتہ برس دسمبر میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انیس سے پچیس سال کی درمیانی عمر کے ان پانچوں کے پاس پاکستانی شہریت بھی ہے۔ عمر فاروق، وقار حسین، رامی زمزم، احمد عبداللہ مِنی اور امان حسن یامر پر گزشتہ مارچ میں سات مختلف مقدمات قائم کئے گئے تھے۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں حراست کے دوران امریکی تفتیشی ادارہ ایف بی آئی بھی ان پانچوں سے پوچھ گچھ کر چکا ہے۔ ناہم یہ پانچوں ملزمان ان پر لگے الزامات کو رد کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے پاکستان آئے تھے اور وہاں سے افغانستان جاکر انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امدادی کام کرنا چاہتے تھے۔

ان پانچوں کا تعلق امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی اور اس کے قریبی علاقوں سے ہے۔ پاکستانی حکام کے بقول سرگودھا میں قیام کے دوران یہ نوجوان دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے قربت رکھنے والی تنظیموں اورعسکریت پسند گروپوں کے ساتھ رابطوں کی کوششوں میں تھے اور پاکستانی حکام کا شبہ ہے کہ یہ نوجوان شورش زدہ اور دہشت گردوں کے گڑھ تصور کئے جانے والے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے کا منصوبہ بھی بنا رہے تھے۔

پانچوں پاکستانی نژاد امریکی باشندے اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ان کے بقول وہ پاکستان دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ ایک شادی میں شرکت کرنے کے لئے آئے تھے۔ شادی کی تقریب کے بعد وہ امدادی کاموں کے سلسلے میں افغانستان جانا چاہتے تھے۔