1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ایک کروڑ افراد ذیابیطس میں مبتلا

14 نومبر 2011

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج چودہ نومبر کو ذیابیطس کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں یہ مرض تشویشناک صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ایک کروڑ سے زائد پاکستانی ذیابیطس کا شکار ہیں۔

https://p.dw.com/p/13AOd
تصویر: DW/Dagmar Wittek

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ملک کی شہری بالغ آبادی کا تیرہ فیصد اور بالغ دیہی آبادی کا گیارہ فیصد حصہ اس بیماری میں مبتلا ہے۔

ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ذیابیطس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمود علی ملک نے بتایا کہ پاکستان کی بالغ آبادی میں ہر دسواں شہری ذیابیطس میں مبتلا ہے۔ ان کے بقول نوے فیصد پاکستانی مریض ذیابیطس کی قسم دو سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی ان مریضوں کا لبلبہ انسولین بناتا تو ہے لیکن اس کی مقدار کم ہوتی ہے۔

ڈاکٹر محمود ملک کے مطابق خطرناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں تیزی سے بڑھنے والی ذیابیطس کی بیماری اب کم عمر لڑکوں میں بھی دیکھی جا رہی ہے۔ طبی ماہرین کے بقول اگلے بیس سالوں میں پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد دو گنا ہو جائے گی۔ ڈاکٹر محمود ملک کے مطابق ذیابیطس کے مریضوں کی اولاد، موٹاپے کے شکار لوگ اور غیر فعال طرز زندگی اختیار کرنے والے افراد عام طور پر اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے بقول ذیابیطس ساری عمر کا مرض ہے لیکن باقاعدہ علاج ، مناسب غذا اور واک سے اس بیماری کی پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے۔

13.07.2011 DW-TV Fit und Gesund diabetes_zucker
ماہرین کے مطابق میٹھی اشیاء کا استعمال اور غیر فعال طرز زندگی کے باعث پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمود علی ملک نے بتایا کہ پاکستان کے غریب عوام اس بیماری کے مہنگے علاج کی استطاعت نہیں رکھتے اس لیے ڈاکٹروں کو مریضوں کو سستی اور مؤثر ادویات تجویز کرنی چاہئیں۔

علامہ اقبال میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر جاوید اکرم نے بتایا کہ جن لوگوں کو ذیابیطس کا مرض لاحق ہے ان کے بچوں کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے امکانات پچاس فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔ ان کے بقول سات سے دس فیصد وزن کم کرنے سے اس مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات چالیس فیصد تک کم ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ گاڑی کی بجائے پیدل چلنے، لفٹ کی بجائے سیڑھیاں چڑھنے، مالی کی بجائے خود باغبانی کرنے اور ملازمین کی بجائے گھر کی صفائی خود کرنے سے طرز زندگی کو فعال بنایا جا سکتا ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں