1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں دو کروڑ بچوں کے اسٹریٹ چلڈرن بننے کا خطرہ

عنبرین فاطمہ، کراچی
12 اپریل 2017

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج سڑکوں پر رہنے والے بے سہارا بچوں کا دن منایا جا رہا ہے۔ آج کا دن منانے کا مقصد ان بچوں کے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے تحفظ کی ضرورت پرزور دینا ہے۔

https://p.dw.com/p/2b72I
Pakistan Straßenkinder
تصویر: DW/U. Fatima

کراچی کی ایک کچی آبادی میں بہنے والی ایک گندی ندی کے کنارے جمع گندگی اور کچرے کے ڈھیر پر ایک 10 سالہ افغان بچہ اپنی ہی عمر کے کئی دیگر بچوں کے ہمراہ کوڑے کے ڈھیر سے کام کی اشیاء جمع کرتا نظر آیا۔ کراچی کی گلی کوچوں میں میلے کپڑے، ٹوٹی چپل اور کندھے پر بڑا سا تھیلہ ڈالے کچرے کے ڈھیروں میں سے رزق تلاش کرنے والے ایسے بچے صرف کراچی ہی نہیں بلکہ ملک بھر کی گلیوں اور سڑکوں پر اکثر نظر آتے ہیں۔ کہیں یہ بچے گاڑیاں صاف کرتے نظر آئیں گے تو کہیں پھول سے ہاتھوں میں گجرے تھامے گاڑیوں کے پیچھے دورٹے دکھائی دیں گے تاکہ انہیں بیچ کر دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر سکیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت دنیا میں 10 کروڑ سے زائد بچے فٹ پاتھوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس عالمی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 15 لاکھ سے زائد بچے سڑکوں پر زندگی کا بیشتر حصہ گزارنے پر مجبور ہیں۔ خیال رہے کہ یہ نتیجہ اب سے 10 برس قبل جمع کردہ اعداد وشمار کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے۔

ان اسڑیٹ چلڈرن کی دیکھ بھال اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم آزاد فاؤنڈیشن کے مطابق سڑکوں پر نظر آنے والے ان بچوں میں سے 94 فیصد لڑکے اور چھ فیصد لڑکیاں ہیں۔ ان میں سے 56 فیصد بچے گھریلو تشدد کے باعث گھر سے باغی ہو کر بھاگ نکلتے ہیں جبکہ 22 فیصد بچے مدرسوں اور تعلیمی اداروں میں سختی و تشدد کے باعث بھاگ کر سڑکوں پر آجاتے ہیں۔

Pakistan Straßenkinder
یہ 10 سالہ افغان بچہ اپنی ہی عمر کے کئی دیگر بچوں کے ہمراہ کراچی میں ایک گندے نالے کے کنارے کوڑے کے ڈھیر سے کام کی اشیاء جمع کر رہا ہےتصویر: DW/U. Fatima

آزاد فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والے محمد عمر، سڑکوں پر رہنے والے بچوں کے لیے ایڈوکیسی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں موجود سڑکوں کے باسی بچوں میں تین طرح کے بچے شامل ہیں، ’’اسٹریٹ چلڈرن ان بچوں کو کہا جاتا ہے جو روز آنہ آٹھ سے دس گھنٹے سڑکوں پر وقت گزارتے ہیں۔ دوسری کیٹگری میں وہ بچے ہوتے ہیں جو چوبیس گھنٹے رہتے ہی سڑکوں پر ہیں۔ ان کو رن اوے چلڈرن یا گھر سے بھاگے ہوئے بچے کہا جاتا ہے جو کسی وجہ سے گھروں کو چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ جبکہ تیسری کیٹگری ہے ورکنگ چلڈرن کی جو سڑکوں پر یا ورک شاپس پر کام کاج کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان تینوں کیٹگریز سے تعلق رکھنے والے بچوں کی مجموعی تعداد صرف یہ پندرہ لاکھ نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارے سروے کے مطابق ملک بھر میں دو کروڑ بچے ایسے ہیں جو اسکول نہیں جاتے اور یہ بچے سڑکوں پر آنے کے انتہائی ہائی رسک کا سامنا کر رہے ہیں یعنی یہ حالات کے دباؤ کے باعث کسی بھی وقت سڑکوں پر آسکتے ہیں۔‘‘

محمد عمر کہتے ہیں کہ ملک میں غربت ان بچوں کے سڑکوں پر آنے کی سب سے بڑی وجہ ہے، ’’ان بچوں میں زیادہ تر تعداد ایسے بچوں کی ہے جو کچی آبادیوں میں رہتے ہیں یا پھر ایسے علاقوں کے رہنے والے ہیں جہاں نہایت محدود ذرائع آمدنی والے افراد رہائش پزیر ہیں۔ پھر ایک وجہ ایسے والدین بھی ہیں جو غیر تعلیم یافتہ یا غیر شعور یافتہ ہیں۔ وہ بچوں پر تشدد بھی کرتے ہیں اور ان کو چھوٹی عمر میں ہی کام پر لگا دیتے ہیں۔ تشدد بھی ایک بڑی وجہ ہے جس کے باعث بچے سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ اس میں صرف والدین یا گھر کے بڑوں کی جانب سے کیا جانے والا تشدد ہی نہیں بلکہ گزشتہ نو دس برسوں میں ان بچوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے جو مدرسوں میں کیے جانے والے تشدد کے باعث بھاگے ہوئے ہیں۔ یہ بچے سڑکوں پر آنے کے بعد کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔‘‘

Pakistan Straßenkinder
اسٹریٹ چلڈرن کی تعداد پندرہ لاکھ سے کہیں زیادہ ہےتصویر: DW/U. Fatima

سڑکوں پر رہنے والے ان بچوں کا بچپن، ان سڑکوں کی ہی بدولت چھین لیا جاتا ہے۔ محمد عمر کے مطابق یہ بچے ان سڑکوں پر کئی طرح کے مسائل اور مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں، ’’وہ بچے جو ان سڑکوں پر ہی بالغ ہوئے، انہوں نے اپنے گروہ بنا لیے ہیں ۔ یہ گروہ نہ صرف بچوں کا جنسی استحصال کرتا ہے بلکہ انہیں کئی طرح کے دیگر جرائم میں ملوث کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان بچوں کو چوری، سریا کاٹنے یا بجلی کے تار چوری کرنے اور اس جیسے دیگر جرائم میں لگا دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں حکومتی اداروں یا پولیس کا کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ اس لیے یہ بچے سڑکوں پر آنے کے بعد مزید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘‘

پاکستان میں سڑکوں پر رہنے والے بچوں کے تحفظ کے لیے حکومتی اداروں کی جانب سے زیادہ کام دیکھنے میں نہیں آتا۔ یہاں حکومت کی جانب سے چودہ برس سے کم عمر بچوں کے کام کرنے پر پابندی تو عائد ہے لیکن ان پر عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ تاہم محمد عمر کے مطابق موجودہ حکومت پنجاب میں ان بچوں کی بحالی کے لیے قائم کیے گئے مرکز کے ذریعے اور کراچی میں سندھ کابینہ کے تعاون سے کورنگی کے علاقے میں ایک شیلٹر بنانے کے منصوبے کے ذریعے کسی حد تک ان بچوں کی مدد کی کوشش کر رہی ہے۔