1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں رواں برس پولیو کے مریضوں کی تعداد ایک سو پچھتر سے زائد

20 دسمبر 2011

دنیا بھر میں پولیو کے مرض کے خاتمے کی کوششیں کافی کامیاب ثابت ہوئی ہیں مگر پاکستان میں یہ مرض تاحال تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں رواں برس اب تک پولیو وائرس کے 175 کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/13Vvz
تصویر: Picture alliance/Ton Koene

یہ تعداد گزشتہ پانچ برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ حکام کے مطابق پولیو کے سب سے زیادہ کیسز کا اندراج صوبہ بلوچستان میں ہوا جن کی تعداد 69 ہے جبکہ دوسرے نمبر پر پولیو سے متاثرہ علاقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات ہیں جہاں رواں برس 51 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان کے علاقے دیامر میں ایک، صوبہ سندھ میں 30 اور پنجاب میں 5 پولیو متاثرہ افراد کا اندراج کیا جا چکا ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے گزشتہ جمعہ کو اسلام آباد میں پولیو کے خاتمے کی تین روزہ مہم کے افتتاح کے موقع پر عوامی نمائندوں اور مذہبی رہنماؤں سے اپیل کی تھی کہ وہ پولیو کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں حکومت کا ساتھ دیں۔

تاہم ڈبلیو ایچ او کے ساتھ منسلک ڈاکٹر زبیر مفتی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پولیو کے خاتمے کے لیے حکومت پاکستان کے متعلقہ اداروں کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔

Poliobekämpfung Nordnigeria
دنیا کے بیشتر ملکوں میں پولیو کے مرض پر قابو پانے کے باوجود پاکستان میں اس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہےتصویر: Thomas Kruchem

’’کافی سارا ایسا علاقہ بھی ہے جہاں پر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیمیں کافی عرصے سے پہنچ ہی نہیں سکیں۔ کافی عرصے سے دو سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے جس کی وجہ سے بچوں کی کافی بڑی تعداد قطرے پینے سے رہ گئی ہے اور اس خطرے کا شکار ہے کہ کہں ان کو پولیو نہ ہو جائے۔‘‘

پاکستان میں انسداد پولیو پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر الطاف بوسن بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پولیو کے خاتمے کی راہ میں مذہبی، سکیورٹی اور دیگر رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ انتظامی کمزوریاں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’فیلڈ میں جو کام ہوتا ہے اس کو بہتر طریقے سے کیا جائے تا کہ نتائج حاصل ہو سکیں۔ اگر یونین کونسل کی سطح سے 95 فیصد سے زائد نتائج حاصل نہیں ہوں گے تو یہ مسئلہ رہے گا اور انہی علاقوں میں یہ مسئلہ ہے جہاں پر اہداف کو حاصل نہیں کیا جا رہا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی صورتحال فاٹا میں ہے۔ سکیورٹی کے مسائل بھی موجود ہیں مگر سب سے اہم بات یہی ہے کہ جن اضلاع میں کام بہتر طریقے سے ہو رہا ہے وہاں پر کوئی مسئلہ نہیں۔ جہاں صحیح طریقے سے کام نہیں کیا جا رہا وہاں پر کیسز سامنے آ رہے ہیں۔

گزشتہ سال ملک بھر میں پولیو وائرس کے 144 کیسز سامنے آئے تھے لیکن اس سال ان میں ایک سو گنا سے زائد اضافہ ہوا ہے۔

Kinderlähmung in der Dritten Welt
پولیو کا ایک مریضتصویر: WHO

ڈاکٹر زبیر مفتی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کو پولیو سے پاک کرنا ہے تو اس کے لیے مستقبل میں ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہو گا۔ انہوں نے کہا، ’’جو پاکستان کی حکومت نے نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان 2011 ء میں شروع کیا وہ اپنے پولیو کے خاتمے کے ہدف کو حاصل نہیں کر سکا۔ ابھی حکومت پاکستان اور اس کی پارٹنر تنظیمیں ہیں جن میں عالمی ادارہ صحت، یونیسیف اور چند اور پارٹنر شامل ہیں۔ انہوں نے مل کر اس منصوبے پر نظر ثانی کی ہے اور اس بات کا بھرپور جائزہ لیا ہے کہ 2012ء پاکستان میں پولیو کا آخری سال ثابت ہو اور ہم 2013ء کے آغاز میں پولیو کے خاتمے کا جشن منائیں۔‘‘

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں