1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں صحافیوں پر بڑھتے حملے جمہوریت کے لیے خطرہ

2 نومبر 2017

آج جمعرات دو نومبر کو صحافیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے حوالے سے یہ بات تشویش کا سبب ہے کہ یہ جنوبی ایشیائی ملک آج بھی صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔

https://p.dw.com/p/2msks
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.Naveed

آج منایا جانے والا عالمی دن صحافیوں کے خلاف جرائم کے مرتکب عناصر کے سزاؤں سے بچ جانے کے عمومی رجحان کے خاتمے کا بین الاقوامی دن ہے، جسے منانے کا سلسلہ تین سال پہلے شروع ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دو نومبر دو ہزار چھ سے لے کر دو نومبر دو ہزار سترہ کے دوران پوری دنیا میں نو سو تیس صحافیوں کو قتل کر دیا گیا۔ ان میں سے نوے سے بھی کم جرائم میں حملہ آوروں کی شناخت ہو سکی یا ان کو سزائیں سنائی جا سکیں۔

اسی عرصے کے دوران پاکستان میں اٹھہتر صحافی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران یا ان کی وجہ سے قتل کر دیے گئے۔ ان میں سے صرف تین مقتولین کے قاتلوں کی شناخت ہوئی یا ان پر مقدمات چلائے گئے۔ اس طرح دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی مقتول صحافیوں کی بہت بڑی اکثریت کے لواحقین کو انصاف نہ مل سکا اور میڈیا کارکنوں کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد یا گروہوں کو قانونی طور پر جواب دہ نہ بنایا جا سکا۔ اس صورت حال کو صحافیوں کے خلاف جرائم کے ذمے دار افراد کو حاصل تحفظ یا استثنیٰ کہا جاتا ہے، جس کے لیے امپیونیٹی (impunity) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

Rana Tanveer
لاہور کے صحافی رانا تنویرتصویر: DW/I. Jabeen

پاکستان میں صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں اور انہیں دی جانے والی دھمکیوں کی تازہ ترین مثال پیشہ ور صحافی احمد نورانی پر کیا جانے والا حملہ ہے۔ نورانی کو چند روز قبل اٹھائیس اکتوبر کو اسلام آباد میں نامعلوم حملہ آوروں نے شدید زخمی کر دیا تھا۔ ڈوئچے ویلے نے جب احمد نورانی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ فی الحال اپنی چوٹوں اور جسمانی حالت کے باعث تفصیل سے بات نہیں کر سکتے تاہم وہ ہسپتال سے اپنے گھر منتقل ہو چکے ہیں اور گھر پر ہی ان کا علاج جاری ہے۔ احمد نورانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان پر حملے کی تفتیش جاری ہے اور اس حوالے سے تفصیلات جلد ہی سامنے آنے کا امکان ہے۔

پاکستان میں میڈیا اور میڈیا کارکنوں کے حقوق پر کام کرنے والی ایک تنظیم فریڈم نیٹ ورک بھی ہے، جس نے آج منائے جانے والے عالمی دن کی مناسبت سے پاکستان کی پہلی سالانہ امپیونیٹی رپورٹ بھی شائع کی۔ فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے سال دو نومبر اور اس سال دو نومبر کے درمیان ایک سال کے عرصے میں پاکستان میں پانچ صحافی قتل کر دیے گئے جبکہ دو پر قاتلانہ حملے بھی کیے گئے، جو ناکام رہے۔ ان حملوں میں شدید زخمی ہو جانے والوں میں سے ایک تو اسلام آباد کے صحافی احمد نورانی تھے اور دوسرے لاہور کے صحافی رانا تنویر۔

فریڈم نیٹ ورک کی امپیونیٹی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان ساتوں قاتلانہ حملوں کی پولیس نے ایف آئی آر کی صورت میں باقاعدہ رپورٹیں تو درج کیں مگر ان میں سے کسی ایک بھی واقعے میں قانونی کارروائی ابتدائی تفتیشی مرحلے سے آگے جا ہی نہ سکی۔ اس رپورٹ کے مطابق ریاست کی طرف سے قانونی کارروائی کی ناکافی پیروی اس بات کا ثبوت ہے کہ صحافیوں پر حملے کرنے والوں کو سزا سے استثنیٰ حاصل ہے۔

اقبال خٹک نے بتایا، ’’ماضی بعید کی طرح ماضی قریب میں بھی ریاست نے تواتر سے وعدے کیے کہ مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کی صورت حال بہتر بنائی جائے گی۔ لیکن ابھی تک یہ وعدے بس وعدے ہی ہیں اور پاکستانی حکومت نے حالات کو قانونی اور انتظامی حوالوں سے بہتر نہیں بنایا تا کہ صحافیوں پر حملوں کی بامعنی تفتیش کرتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں اور مجرموں کو سزائیں سنائی جا سکیں۔ اس کے علاوہ آج کے عالمی دن کی مناسبت سے پاکستانی حکومت نے ملک میں امپیونیٹی کی صورتحال سے متعلق اپنی لازمی سالانہ کارکردگی رپورٹ بھی اقوام متحدہ کو پیش نہیں کی۔

میڈیا پر حملوں کے بارے میں برسوں سے تحقیق کرنے والے اور ایک غیر سرکاری تنظیم سے منسلک میڈیا مانیٹر ضیا اللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کئی سالوں سے صحافیوں پر حملوں اور دباؤ کا عمل جاری ہے مگر اکتوبر دو ہزار سترہ کا مہینہ اس حوالے سے صورتحال کی تشویشناک نوعیت کا عکاس ہے۔ ضیا اللہ نے ڈی دبلیو کو بتایا، ’’گزشتہ ماہ صحافی مطیع اللہ جان پر گاڑی چلاتے ہوئے حملہ ہوا، سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی کو ریاستی اداروں پر تنقید کرنے کے باعث اپنا ٹی وی پروگرام روکنا پڑا جبکہ صحافی طلعت حسین کے ٹی وی پروگرام کی وجہ سے ان کی نجی زندگی تک کے بارے میں افواہیں پھیلائی گئیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں دو کالعدم انتہا پسند تنظیموں نے صوبے بھر میں تمام اخبارات کی ترسیل کو کئی دن تک روکے رکھا۔ اس پاکستانی صوبے میں صحافیوں کو تاحال خوف کی صورت حال کا سامنا ہے۔‘‘

میڈیا مانیٹرضیا اللہ نے مزید کہا کہ ان حملوں اور دباؤ کا سامنا صرف صحافیوں کو ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر سرگرم سٹیزن جرنلسٹ بھی اسی طرح کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ ان حالات میں سابق وزیر اعظم نوازشریف تک کو اپنے پارٹی کارکنوں کے سوشل میڈیا پر دیے گئے بیانات کی وجہ سے ان کی گرفتاریوں اور ان کے خلاف مقدمات درج کیے جانے کے خلاف احتجاج کرنا پڑا۔

پاکستان میں قانونی اصلاحات کے موضوع پر کام کرنے والی تنظیم ’ارادہ‘ کے سربراہ محمد آفتاب عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے دو برسوں سے پاکستان کے بیس ہزار صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں کے مسلسل اصرار پر حکومت نے صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک نیا خصوصی قانون پارلیمان میں لانے کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن اس پر عمل آج تک نہیں ہوا۔

Ahmad Noorani
احمد نورانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان پر حملے کی تفتیش جاری ہے اور اس حوالے سے تفصیلات جلد ہی سامنے آنے کا امکان ہے۔تصویر: DW/I. Jabeen

آفتاب عالم اس اسپیشل قانون کے حوالے سے پاکستان کی فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، وفاقی وزارت اطلاعات اور ملکی سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کی مشاورت بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق اور سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور وفاقی وزیر قانون بھی صحافیوں کے تحفظ سے متعلق اس وعدہ کردہ قانون کے حامی ہیں، ’’مگر مایوس کن بات یہ ہے کہ وعدوں کے باوجود یہ قانونی مسودہ ابھی تک پارلیمان میں پیش نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے احمد نورانی پر حملے جیسے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔‘‘

ان حالات میں مسلح حملوں اور دباؤ کے زیر سایہ کام کرنے والے پاکستانی صحافیوں کا کہنا ہے کہ جب تک وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں، ملکی میڈیا آزاد نہیں ہو سکتا اور آزاد میڈیا کے بغیر جمہوریت بھی ادھوری اور کمزور ہی رہے گی۔

زینت شہزادی کیس

پاکستانی خاتون صحافی زینت شہزادی اگست دو ہزار پندرہ میں اس وقت لاپتہ ہو گئی تھیں، جب وہ ایک بھارتی شہری حامد انصاری کے مقدمے کی پیروی کر رہی تھیں۔ حامد انصاری کو پاکستانی خفیہ اداروں نے اپنی حراست میں لیا ہوا تھا۔ زینت شہزادی کی گمشدگی پر پاکستان میں سوشل میڈیا پر بھی کافی بات ہوئی تھی اور حال ہی میں دو سال بعد زینت واپس اپنے گھر لوٹ آئی تھیں۔

ڈی ڈبلیو نے جب زینت شہزادی کے بارے میں پاکستانی صحافی تنظیموں کے چند عہدیداروں سے رابطہ کیا، تو عمومی تاثر یہ تھا کہ زینت کا اغوا ان کے صحافتی کام کی وجہ سے نہیں ہوا تھا بلکہ وجہ ان کی اپنی نجی زندگی میں وہ سماجی سرگرمیاں تھیں، جن کا تعلق ایک لاپتہ بھارتی شہری کے بارے میں اس کے بھارت میں مقیم خاندان کی مدد کرنے کی کوششوں سے تھا۔

ایشیائی خاتون صحافیوں کے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پیغامات