1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے حملے، سالانہ پانچ ارب ڈالر کے نقصان کا باعث بھی

عاطف بلوچ21 ستمبر 2015

پاکستان کے فنانس سیکرٹری وقار مسعود خان کے مطابق طالبان کے پرتشدد حملوں کے نتیجے میں ملکی اقتصادیات کو سالانہ بنیادوں پر پانچ ارب ڈالر کا مالی نقصان بھی ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ga5O
تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے روئٹرز نے پاکستانی فنانس سیکرٹری وقار مسعود خان کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان میں طالبان کی شورش کی وجہ سے ملک میں غیر ملکی سرمایا کاری شدید متاثر ہوئی ہے، جس کی وجہ سے پاکستانی اقتصادیات سالانہ بنیادوں پر پانچ بلین ڈالر کے خسارے کا شکار بھی ہو رہی ہے۔

پیر کے دن لندن میں روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے وقار مسعود خان نے مزید کہا، ’’گزشتہ ایک یا ڈھائی عشروں سے جاری دہشت گردی کی وجہ سے ہمارے ملک کو شدید مالیاتی نقصان ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس تشدد کی وجہ سے نہ صرف اقتصادی مواقع ضائع ہوئے بلکہ اقتصادی ترقی کی رفتار بھی متاثر ہوئی۔

پاکستان کے سیکرٹری خزانہ کے مطابق، ’’ماضی میں پاکستان میں غیر ملکی سرمایا کاری پانچ تا سات بلین ڈالر تک بھی رہی لیکن اب یہ سکٹر کر صرف دو بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کی طرف سے انتہا پسندوں کے خلاف شروع کی جانے والی کارروائی کے بعد اب صورتحال کچھ بہتر ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جیسے ہی پاکستان میں سلامتی کی صورتحال بہتر ہو گی تو پھر یہ ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہو جائے گا۔

Pakistan Taliban in South Waziristan ARCHIVBILD 2012
طالبان کے تشدد کی وجہ سے نہ صرف اقتصادی مواقع ضائع ہوئے بلکہ اقتصادی ترقی کی رفتار بھی متاثر ہوئیتصویر: picture-alliance/AP Photo

پاکستان میں توانائی کا بحران بھی شدید ہے، جس کی وجہ سے کاروباری اداروں کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔ اسلام آباد حکومت کے مطابق توانائی کے اس بحران پر قابو پانے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ اس کے باوجود حالیہ عرصے کے دوران عالمی منڈی میں روپے کی قدر کئی دیگر ممالک کی کرنسیوں سے بہتر ہوئی ہے۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستانی حکومت کی طرف سے اصلاحات میں ناکامی کے باعث 1998ء سے لے کر اب تک عالمی مالیاتی ادارے کے بارہ میں سے گیارہ پروگرامز ماتثر ہوئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ ایک بڑی کامیابی ہو گی اگر ستمبر تک چلنے والا ایک پروگرام ترک نہ کرنا پڑے۔ تاہم وقار مسعود خان کے بقول اسلام آباد عالمی مالیاتی ادارے کے مزید پروگراموں کے لیے رضا مند ہے۔