1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کا جنوبی ایشیا میں نیا معاشی اتحاد بنانے کا اشارہ

عبدالستار، اسلام آباد
12 اکتوبر 2016

سارک میں بھارتی اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے پاکستان جنوبی ایشیا میں ایک نئے معاشی اتحاد کی تشکیل کے امکانات پر غور کر رہا ہے۔ یہ انکشاف سینیٹر مشاہد حسین سید نے اپنے دورہٴ امریکا کے دوران منگل کو نیو یارک میں کیا۔

https://p.dw.com/p/2R9cY
Nepal SAARC Gipfel in Kathmandu 2014
نومبر 2014ء میں نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کا ایک منظرتصویر: Getty Images/N. Shrestha

مشاہد حسین کا کہنا تھا،’’ایک گریٹرجنوبی ایشیا ابھر رہا ہے، جس میں ایران، چین اور وسطی ایشیائی ریاستیں شامل ہیں۔‘‘ مشاہد حسین کے مطابق چین-پاکستان معاشی راہداری جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیا سے ملائے گی:’’اس کے علاوہ گوادر کی بندرگاہ نہ صرف چین بلکہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے گرم پانی کی قریب ترین بندرگاہ ہے۔‘‘

پاکستانی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا:’’بنیادی طور پر مشاہد حسین نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ خطے میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ روس و چین اپنے اختلافات بھُلا کر ساتھ چلنے کی بات کر رہے ہیں۔ بھارت امریکا کے قریب ہو رہا ہے۔ لاؤس، ویت نام اور خطّے کے دوسرے ممالک ’ساؤتھ چائنا سی‘ کے مسئلے پر چین کے خلاف جا ر ہے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے علاقائی تعاون کی بات کرتا ہے اور اسلام آباد نے سار ک کو وسعت دینے کی بات کی ہے لیکن بھارت نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی۔ یورپی یونین، آسیان، ایس سی او سمیت دنیا کی کئی تنظیموں نے اپنے ارکان کی تعداد میں اضافہ کیا تو پھر سارک کے ارکان کی تعداد میں اضافہ کیوں نہیں ہو سکتا۔‘‘

Logo SAARC South Asian Association For Regional Cooperation
علاقائی تعاون کی جنوبی ایشیائی ایسوسی ایشن (SAARC) کا قیام آٹھ دسمبر 1985ء کو عمل میں آیا تھا

ایک سوال کے جواب میں اس حکومتی عہدیدار نے کہا:’’پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور علاقائی تعاون میں اضافہ ہو۔ افغانستان کے عوام نے جنگ کی وجہ سے بہت مشکلات اٹھائی ہیں لیکن پاکستان خطّے میں علاقائی تعاون کو اس کے بغیر بھی فروغ دے سکتا ہے۔ پاکستان تاجکستان اور چین کے مغربی صوبے کے ذریعے بھی خطے کے معاشی ادغام کو آگے بڑھا سکتا ہے۔‘‘

اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بین الاقوامی امن و استحکام کے ادارے سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کا کہنا ہے کہ خطّے کے ممالک کے درمیان معاشی ادغام کی کوششیں پہلے ہی چل رہی ہیں۔ اس اتحاد کے حوالے سے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا:’’وسطی ایشیائی ممالک کے سربراہوں نے حالیہ برسوں میں پاکستان کا دورہ کیا ہے جبکہ وزیرِ اعظم پاکستان بھی اب ایک وسطی
ایشیائی ریاست کا دورہ کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے کاسا کا معاہدہ کیا۔ ایران سے بھی گیس و بجلی کے معاہدے کی بات ہو رہی ہے۔ افغانستان و ترکمانستان کے ساتھ ٹاپی کا معاہدہ ہوا ہے۔ اور اب سی پیک اس تمام معاشی ادغام کو مزید تیز کرے گا۔ پاکستان جنوبی ایشیا کو مغربی و وسطی ایشیائی ریاستوں سے ملانے کا سب سے آسان اور سستا راستہ ہے اور پاکستانی قیادت اس جغرافیائی حیثیت کا اب بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔‘‘

Bhutan South Asia Summit SAARC Gipfel
2010ء میں سارک سربراہ کانفرنس کی میزبانی کے فرائض بھوٹان نے انجام دیے تھےتصویر: AP

انہوں نے اِس تاثر کو غلط قرار دیا کہ وسطی ایشیائی ریاستیں اسلام آبادکو غیر ریاستی عناصر کی مبینہ حمایت کرنے کی وجہ سے شک کی نظر سے دیکھتی ہیں:’’ازبکستان میں عسکریت پسند گروہ کام کر رہے تھے۔ تاجکستان اور دوسری وسطی ایشیائی ریاستوں میں وہاں کے مقامی لوگ شدت پسندی میں ملوث تھے۔ ہر ملک کے مسائل کا ملبہ پاکستان پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ بھارت کابل سے لاکھ قربتیں بڑھائے لیکن پاکستان کے بغیر وہ افغانستان میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ ایران کے ذریعے وسطی ایشیا تک پہنچنا بھارت کے لیے معاشی اعتبار سے مہنگا پڑے گا، تو خطّے میں پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اہم رہے گی اور اس بلاک کی تشکیل ہو کر ہی رہے گی کیونکہ خطّے کے کئی ممالک اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔‘‘

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکڑ امان میمن اس اتحاد کی تشکیل میں کئی رکاوٹیں دیکھ رہے ہیں:’’اس بلاک کی تشکیل کے لیے افغانستان میں امن ضروری ہے۔ پاکستان یہ بلاک سارک میں بھارت کے تسلط پسندانہ رویے کے خلاف بنانا چاہتا ہے، جہاں افغانستان، بنگلہ دیش ، بھوٹان اور نیپال بھی نئی دہلی کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ پاکستان خطّے اور بین الاقوامی برادری میں تنہا نہیں ہونا چاہتا۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ غیر ریاستی عناصر کی سر پرستی کرنے کی پالیسی پر نظرثانی کی جائے، افغانستان میں امن کی کوششوں کی حمایت کی جائے اور جہادی عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے کیونکہ ان عناصر سے نہ صرف بھارت و افغانستان پریشان ہیں بلکہ وسطی ایشیائی ریاستیں بھی اس وجہ سے پاکستان کو شک کی نظر سے دیکھتی ہیں۔اس پالیسی کو بدلے بغیر اس اتحاد کا خواب شرمندہٴ تعبیر نہیں ہوسکتا۔‘‘