1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کا وائٹ ہیٹ کمپیوٹر ہیکر

دانش بابر، پشاور20 اکتوبر 2015

صوبہ خیبر پختونخوا کے بابر خان نے کمپیوٹر ہیکنگ کی کوئی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی ہے لیکن وہ اس کام کے ماہر ہیں۔ وہ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کر چکے ہیں اور اپنی اس صلاحیت سے پیسہ بھی کما رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GrA2
Pakistan, Babar Khan Akhunzada
تصویر: DW/D. Baber

بابر خان اخونزادہ بنیادی طور پر ایک وائیٹ ہیٹ ہیکر (White Hat Hacker) ہیں۔ ہیکر کا نام سنتے ہی ذہن میں کمپیوٹر سسٹم کے تباہی اور غلط استعمال کا خیال آتا ہے لیکن بابر خان ہیکنگ کو لوگوں اور مختلف کمپنیوں کی بھلائی اور تخفظ کے لئے استمال کرتے ہیں۔ بابر کہتے ہیں کہ انہوں نے ہیکنگ کی کوئی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی ہے لیکن ان کو بچپن ہی سے کمپیوٹر کی دنیا سے لگاوُ تھا اور انہوں نے مختلف ویب سائیٹس اور بلاگز سے رہنمائی حاصل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی اپنی صلاحیتوں کو منفی سرگرمیوں کے لئے استعمال نہیں کیا۔ بابرخان نے گزشتہ قریب تین برسوں میں دنیا بھر کے مشہور کمپنیوں کو اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ ’’میں ایک سو سے زائد ویب سائیٹس میں بگز کی نشاندہی کر چکا ہوں، جن میں سونی، ایپل، مائیکرو سافٹ، نوکیا اور ای بے جیسی بین الاقوامی کمپنیاں بھی شامل ہیں اور ان سب کو میں مختلف سائبر حملوں سے تخفظ فراہم کرنے میں مدد فراہم کرچکا ہوں۔‘‘

Pakistan, Babar Khan Akhunzada
بابرخان گیارہویں جماعت کا طالب علم ہےتصویر: DW/D. Baber

بابرکہتے ہیں کہ وہ بگز یا نیٹ ورک کی کمزوری کی نشاندہی کرنے کے بعد کمپنی کو خبردار کرتے ہیں اور ان کی سکیورٹی کو مزید بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں، جس کے بدلے ان کو تعریفی اسناد کے علاوہ اچھی رقم بھی مل جاتی ہے۔

وائیٹ ہیٹ ہیکنگ اور دوسرے ہیکرز میں فرق بتاتے ہوئے ایک سافٹ ویئر انجینئر عبدالمقسط کہتے ہیں، ’’سائبر کی دنیا میں مختلف اقسام کے ہیکرز ہوتے ہیں، پہلی قسم بلیک ہیٹس ہیکرز کی ہے، جن کو خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ یہ لوگ صارفین کا ڈیٹا چراتے اور اس کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اکثر اوقات سسٹم کو ناکارہ بھی بنا دیتے ہیں، دوسری قسم اس کے بالکل برعکس ہے، یہ لوگ کم سکیورٹی کے ویب سائٹس اور ایپلیکیشن میں بگز (Bugs) یا لوپ ہولز (Loop Holes) کی شناخت کرنے کے بعد انتظامیہ کو خبردار کرتے ہیں اور اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد بھی فراہم کرتے ہیں یہ لوگ وائیٹ ہیٹس یا اخلاقی ہیکرز کہلاتے ہیں۔ تیسری قسم گرے ہیٹس ہیکرز کی ہے جوکہ غیر متوقع ہوتے ہیں اور یہ لوگ مدد فراہم یا معمولی نقصان پہنچاسکتے ہیں۔‘‘

Pakistan, Babar Khan Akhunzada
تصویر: DW/D. Baber

بابرخان گیارہویں جماعت کا طالب علم ہے اور فی الحال وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ ایک امریکی کمپنی ’letsBrik.co‘ کے ساتھ ڈیٹا سیکورٹی اینالسٹ کے طور پرکام کررہا ہے۔ وہ گزشتہ دنوں ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والی بین الاقوامی سٹارٹ اپ کانفرنس میں شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے چالیس ممالک کے ایک سو سے زائد کمپوٹر ماہرین نے شرکت کی اور اپنی پراڈکٹس پیش کیں۔ بابر خان کے علاوہ ان مقابلوں میں پاکستان سے چھ ٹیموں نے شرکت کی لیکن بابر خان پاکستان کا واحد نمائندہ تھا، جوکہ ناصرف ٹاپ پندرہ میں جگہ بناسکا بلکہ کم عمر ترین آئی ٹی سکیورٹی سپیشلسٹ کا اعزاز بھی اسی کو ملا۔ بابرخان کہتے ہیں، ’’ اگرچہ اس دورے میں ہمیں حکومت کی طرف سے کوئی مدد حاصل نہیں تھی لیکن پھر بھی یہ ایک نہایت ہی کامیاب دورہ تھا، جس میں بہت سے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ روابط بن گئے، اور امید ہے کہ مستقبل میں مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملے گا۔‘‘

پشاور میں قائم ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک پرائیویٹ ادارے بیس کیمپ کے بانی عزیر خان کہتے ہیں، ’’بلیک ہیٹس ہیکرز صرف نقصان پہنچانے کے لئے مشہور ہوتے ہیں، اکثر کے اصل ناموں سے بھی کوئی واقف نہیں ہوتا جبکہ وائٹ ہیٹس ہیکرز کو سبھی لوگ جانتے ہیں اور یہ لوگ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ بابر خان کا نام متعدد ویب سائیٹس کے ہال آف فیم میں شامل کیا گیا ہے جوکہ ملک کے لئے باعث فخر ہے۔‘‘

بابرخان سائبر سکیورٹی کے حوالے سے تحقیق کے ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرکے آئی ٹی کے میدان میں اپنے ملک کا نام مزید روشن کریں۔