1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کو دباؤ میں لانے کی امریکی کوششیں

12 اکتوبر 2011

تجزیہ کار امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے حقانی نیٹ ورک سے مذاکرات اور وزیر دفاع لیون پنیٹا کے پاکستان میں لڑائی جاری رکھنے سے متعلق بیانات کو پاکستان پر دباؤ برقرار رکھنے کی حکمت عملی کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/12qjT
تصویر: AP

امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا کی جانب سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ تنویر احمد خان نے کہا، ’’وہ بیان بہت اشتعال انگیز ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم کارروائیاں کر رہے ہیں۔ مختلف آوازیں ہیں جو واشنگٹن سے آتی ہیں۔ اس کے دو پہلو ہیں، ایک تو واشنگٹن میں بڑے شدید اختلافات ہیں، کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔‘‘

تنویر احمد خان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ چاہتا ہے کہ خطے میں دیرپا امن قائم ہو تو اسے پاکستان کے حوالے سے ایک واضح اور شفاف پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو نظر انداز کر کے خطے میں دیرپا امن کا قیام مشکل ہے۔

دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے حقانی نیٹ ورک سے مذاکرات کے دروازے بند نہ کیے جانے کے حوالے سے برطانوی خبر رساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہو ئے دفاعی تجزیہ نگار ایئر مارشل (ر) مسعود اختر نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک سے بات چیت امریکہ کی دیرینہ خواہش ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک سے بات کیے بغیر وہ کبھی بھی افغانستان میں حالات معمول پر نہیں لا سکتا۔

Pakistan Anschlag USA Drohnenangriff Flash-Galerie
امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا کی جانب سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہےتصویر: picture alliance / dpa

ایئر مارشل (ر) مسعود اختر کے مطابق امریکہ حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ امریکی عہدیداروں کے تازہ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ایک کہتا ہے کہ ہم بات کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا کہتا ہے کہ ہمارے نیوکلیئر ہتھیار بڑھتے جا رہے ہیں، تو وہ صرف پاکستان پر اپنا دباؤ بڑھا رہے ہیں کہ پاکستان کس حد تک جا سکتا ہے۔ شمالی وزیرستان میں حقانی گروپ کے خلاف وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان بات بھی کرائے اور آپریشن کرتے ہوئے حقانی گروپ کو دباؤ میں بھی لے کر آئے۔‘‘

دریں اثناء پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے سرکاری طورپر امریکی وزراء کے ان بیانات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔

رپورٹ: شکوررحیم،اسلام آباد

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں