1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی آبادی میں تیزرفتار اضافہ

عاطف توقیر
31 اگست 2017

پاکستان میں ہونے والی مردم شماری میں سامنے آنے والے تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملکی آبادی میں گزشتہ دو دہائیوں میں 57 فیصد تک کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2j9Gv
Pakistan Präsident Mamnoon Hussain eröffnet Volkszählung
تصویر: DW/R. Saeed

 پاکستان میں سیاسی جماعتیں اس مردم شماری کے درست اور نادرست ہونے سے متعلق بحث و تکرار میں مصروف ہیں جب کہ مذہبی گروہ اسلام آباد کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی پر گفت گو کرتے نظر آتے ہیں، تاہم پاکستانی سول سوسائٹی اور ماہرین سماجیات اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ ملکی آبادی میں اس تیزی سے ہونے والے اثرات کیا ہوں گے اور سلامتی و ترقی کے حالات پر ان کا کیسا سنگین اثر ہو سکتا ہے؟

مردم شماری کے عبوری نتائج کے مطابق پاکستان کی آبادی بڑھ کر دو سو سات اعشاریہ سات سات تک پہنچ ہے، جو گزشتہ دو دہائیوں میں آبادی میں 57 فیصد اضافے کی نشان دہی کر رہی ہے۔

تازہ مردم شماری کے مطابق آبادی میں سب سے زیادہ تیز رفتار اضافہ اہم شہروں، مغربی صوبوں اور خصوصاﹰ افغانستان کی سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقہ جات میں دیکھا گیا ہے۔

Pakistan Bombenanschlag Parachinar
شہروں اور مغربی علاقوں میں آبادی میں اضافہ انتہائی تیز رفتار دیکھا گیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/J, Absullah

اس مردم شماری کے تناظر میں ملک کے مختلف علاقوں کے درمیان تلخی بھی پیدا ہوئی ہے، جہاں ملک کے چھوٹے صوبے وفاقی حکومت پر اعداد وشمار میں ہیرپھیر کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ مختلف سیاست دان اپنے اپنے علاقوں میں آبادی ’کم‘ دکھائے جانے پر برہم ہیں اور ان کا موقف ہے کہ ان کے زیراثر علاقوں میں آبادی سامنے آنے والے اعدادوشمار سے زیادہ ہے۔

سابق وزیرخزانہ ڈاکٹر مبشر حسن نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’ملکی بجٹ کا زیادہ تر حصہ فوج کے حصے میں آ جاتا ہے، باقی حصہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سرکاری افسر لے جاتے ہیں۔ جب تک ہم فوجی بجٹ کم نہیں کرتے، جاگیرداری نظام کا خاتمہ نہیں کرتے اور زمینوں کو تقسیم نہیں کرتے، تب تک ہم بڑھتی آبادی کے مسائل سے نمٹ نہیں سکتے۔‘‘

پاکستان میں سن 1998 میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج کے اعتبار سے یہ تازہ اعداد و شمار آبادی میں 57 فیصد اضافے کا اشارہ دے رہے ہیں، جس پر پاکستانی سول سوسائٹی کو انتہائی تشویش ہے۔ لاہور میں مقیم انسانی حقوق کے اک کارکن فاروق طارق کے مطابق، ’’اگر ریاست اپنی ذمہ داریاں درست انداز سے نہیں نبھاتی، تو صورت حال اگے چل کر مزید تباہ کن ہو سکتی ہے۔‘‘

فاروق کا کہنا تھا، ’’ملک میں بسنے والے 67 فیصد سے زائد لوگ اب بھی ایک پکی چھت کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جب کہ 60 فیصد غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘