1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے تعاون کے بغیر خطے میں قیام امن ممکن نہیں، مک کین

عاطف بلوچ، روئٹرز
3 جولائی 2017

امریکی ری پبلکن سینیٹر جان مک کین نے کہا ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان یا خطے میں قیام امن کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اب پاکستان کا کردار زیادہ اہم ہو چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/2fpTm
USA Senator John McCain
تصویر: Reuters/J. Roberts

خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ امریکی سینیٹر جان مک کین نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران کہا کہ افغانستان یا خطے میں قیام امن کے لیے کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوں گی، جب تک پاکستان کا تعاون حاصل نہیں کیا جاتا۔ وہ افغانستان کے لیے امریکا کی نئی پالیسی پر غور کے لیے پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان باہمی تعلقات بہتر بنائیں، چینی وزیر خارجہ

پاکستان سے متعلق ٹرمپ کی پالیسی: ’زیادہ ڈرون حملے زیر غور‘

کابل حملے کے بعد انگلی حقانی نیٹ ورک اور آئی ایس آئی کی طرف

میڈیا نے پاکستانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ جان مک کین نے اتوار کے دن مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز اور آرمی چیف جنرل قمر باجودہ سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس دوران انہوں نے کہا، ’’شائد اب ہمارا تعلق ماضی کے مقابلے میں زیادہ اہم ہو چکا ہے۔‘‘

امریکی سینیٹ میں آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئر مین مک کین کا مزید کہنا تھا، ’’ہم پاکستان کے بغیر اس خطے میں امن قائم نہیں کر سکتے ہیں۔‘‘ اس دورے میں امریکی سینیٹرز لنڈسی گراہم، الزبتھ وارَن،  شیلڈن وائٹ ہاؤس اور ڈیوڈ پرڈیو بھی مک کین کے ہمراہ تھے۔

گزشتہ ہفتے ہی دو امریکی اہلکاروں نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ پاکستان کے بارے میں اپنے مؤقف میں سختی لانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موجود جنگجو افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں کرتے ہوئے امریکی مفادات کو نشانہ بناتے ہیں۔ تاہم اسلام حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

امریکی سینیٹرز سے ملاقات کے بعد سرتاج عزیز کا بھی کہنا تھا کہ موجودہ وقت میں خطے میں قیام امن کی خاطر امریکا اور پاکستان کی اسٹریٹیجک پارٹنر شپ انتہائی اہم ہے۔ تاہم متعدد سکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد حکومت بالخصوص حقانی گروپ کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کر رہی ہے۔

واشنگٹن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فعال یہ شدت پسند گروہ پناہ گاہیں بنائے ہوئے ہے اور افغانستان میں حملوں میں تعاون فراہم کرتے ہیں۔