1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان تعلقات میں بہتری کے لیے ’ٹریک ٹو ڈپلومیسی‘

شادی خان سیف، کابل
17 دسمبر 2017

پاکستان اور افغانستان کے مابین حکومتی سطح پر موجود سردمہری دور کرنے اور دوستانه تعلقات کے فروغ کے لیے ’ٹریک ٹو ڈپلومیسی‘ کے حالیه سلسلے میں ایک ماه کے دوران دو وفود اسلام آباد سے کابل کا دوره کر چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2pVcB
Pakistan Afghanistan Abdullah Abdullah
تصویر: Chief Executive Office of the Afghan Government

’ٹریک ٹو ڈپلومیسی‘ کا بنیادی مقصد رابطوں کو فروغ دینا، عوام کے مابین رابطے بڑھانا اور حکومتوں کو مثبت اور عملی اقدامات کی جانب راغب کرنا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان سے ایک وفد نے رکن قومی اسمبلی شازیه مری کی قیادت میں آج کابل کا دوره مکمل کيا۔ اس وفد مختلف جماعتوں سے وابسته ارکان پارلیمان، تاجر برادری اور سول سوسائٹی کے نمائندے شامل تهے۔

’افغانستان کا مستقبل، اب بھارت کو نظر انداز کرنا مشکل‘

طالبان کے ساتھ امن مذاکرات، پیچیدگیاں اور مشکلات

افغان حکومت کے چیف ایگزیکیٹو عبدالله عبدالله نے اتوار کو اپنے دفتر میں پاکستان سے آئے مہمانوں کی میزبانی کے فرائض نبهائے۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا که افغانستان ہمسایه ممالک کے ساتھ دیرینه اور دوستانه تعلقات کا خواہاں ہے، جو اچهے تعلقات کے بنیادی اصول، یعنی متقابل احترام اور مثبت تعاون پر مبنی ہو۔ ان کا کہنا تھا، ’’دونوں اقوام کے مابین تعاون کا سچا جذبه موجود ہے، اور تعلقات میں بہتری کی خاطر اس جذبے سے کام لیا جانا چاہیے۔ اعتماد سازی کے لیے بنیادی طور پر ضروری ہے که دہشت گردی کے خلاف سچی جنگ لڑی جائے اور عسکریت پسندوں کے ٹهکانے ختم کرنے کے لیے بنیادی اقدامات اٹهائے جائیں۔‘‘

شازیه مری کی قیادت میں افغانستان کا دوره کرنے والے وفد میں تاجر برادری کے نمائندوں کی موجودگی اس بات کا اشاره ہے که یه ٹریک ٹو ڈپلومیسی محض سیاسی مسائل سے متعلق نہیں ہے بلکه تجارت بهی ایک اہم محور ہے۔ پاکستانی وفد کی سربراه شازیه مری نے افغان پارلیمان کے دورے کے موقع پر تجارت کے فروغ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ آج عبدالله عبدالله سے ملاقات کے موقع پر انہوں نے واضح کیا که مسائل کے حل کے لیے بات چیت ہونی چاہیے۔

سال 2001 میں طالبان دور کے خاتمے کے بعد سے کابل اور اسلام آباد کے تعلقات میں خاصے نشیب و فراز نمایاں رہے۔ افغانستان میں بعض مبصرین افغان صدر محمد اشرف غنی کی جانب سے سن 2014 کے اواخر میں پاکستان کو دوستی کی پیشکش کے ردِ عمل میں پاکستان کی جانب سے مناسب جواب نه ملنے کو ایک اہم موقعے کا ضیاع قرار دیتے ہیں۔

عالمی بینک میں اقتصادی امور کے مشیر کی حیثیت سے کام کا تجربه رکهنے والے افغان صدر غنی کی حکومت افغان معیشت کی ساخت کو مکمل طور پر بدلنے کی منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان کے کراچی پورٹ پر انحصار ختم کرنے اور وسطی ایشیا، ایران، بهارت اور ترکی سے تجارت کے فروغ کی ان کی پالیسیوں کے باعث دو سال کے اندر ہی پاکستان سے برآمدات مین ایک ارب ڈالر سے زائد کمی دیکهی جارہی ہے۔

پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب میں تیزی

پاکستان افغانستان مشترکه چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر خان جان الکوزئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که پاکستان سے برآمدات 2.5 ارب ڈالر سے کم ہوکر 1.4 ارب ڈالر تک آچکی ہیں، اور اس میں مزید کمی متوقع ہے۔ پاکستان سے کئی شکایتوں اور گلے شکوے رکهنے کے باوجود الکوزئی کا ماننا ہے که اگر خلوص نیت موجود ہو تو دونوں ممالک ایک دوسرے کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ الکوزئی کے مطابق ہمسایہ ممالک کے مابین نزدیکی رابطوں سمیت دو طرفه تجارت میں فروغ کے لیے کئی امکانات موجود ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے فروغ میں جرمن سماجی اداره ’فریڈرش ایبرٹ شٹفٹنگ‘ اہم کردار نبها رہا ہے۔ رواں ماه کے اوائل میں اس ادارے کے تعاون سے پاکستان کے چنیده اور تجربه کار صحافیوں کے ایک گروپ نے بهی کابل کا دوره کیا تها۔

حالیه دورے کے منتظم، سینیئر صحافی اور سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر امتیاز گل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که پاک افغان جوائٹ کمیٹی نے دونوں ممالک پر زور دیا ہے که ٹرانزٹ اور دو طرفه تجارت سمیت تعلیم، ثقافت اور دیگر شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے فوری طور پر مذاکرات کا آغاز کریں۔

چین جیش محمد کو ’تحفظ‘ کیوں دے رہا ہے؟

پاک سفارت کاروں کی افغانستان میں حراست، تعلقات میں پھر تلخی؟