1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان دستوں کے مابین لڑائی: پاکستانی سفیر کی طلبی

مقبول ملک19 اگست 2015

پاکستان اور افغانستان کی سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپوں اور ان میں مبینہ طور پر افغان سرحدی پولیس کے آٹھ اہلکاروں کی ہلاکت کی وضاحت کے لیے کابل حکومت نے افغانستان متعینہ پاکستانی سفیر کو طلب کر لیا۔

https://p.dw.com/p/1GHr1
افغان بارڈر پولیس کے دستےتصویر: Aref Karimi/AFP/Getty Images

کابل سے موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں آج بدھ انیس اگست کے روز بتایا گیا کہ افغانستان میں طالبان کے خونریز حملوں میں حالیہ تیزی کے بعد دونوں ہمسایہ ریاستوں کے باہمی تعلقات میں جو کچھاؤ پایا جاتا ہے، اس کے تناظر میں حالیہ سرحدی جھڑپیں دونوں ملکوں کے تعلقات کو لگنے والے نئے دھچکے کا ثبوت ہیں۔

روئٹرز نے لکھا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ہی کو اپنی اپنی سرزمین پر طالبان کی خونریز کارروائیوں کا سامنا ہے اور اس سلسلے میں اسلام آباد کا کابل حکومت کے ساتھ تعاون افغانستان میں قیام امن کے لیے بہت اہم سمجھا جاتا ہے کیونکہ پاکستان کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ اسے افغان طالبان اور ان کے اتحادی عسکریت پسندوں میں اچھا خاصا اثر و رسوخ حاصل ہے۔

افغان وزارت خارجہ کے منگل کو رات گئے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق افغان حکام نے کابل میں پاکستانی سفیر سید ابرار حسین کو ملکی وزارت خارجہ میں طلب کر کے توپ خانے سے کی جانے والی اس بھاری گولہ باری پر شدید اعتراض کیا جو، بیان کے مطابق، پاکستان دستوں کی طرف سے افغان سرحدی صوبے کنڑ میں کی گئی۔

افغانستان کے نائب وزیر خارجہ کے مطابق، ’’پاکستانی فوج کی ایسی کارروائیوں کے تسلسل سے اسلام آباد اور کابل کے باہمی تعلقات پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘ اس بارے میں روئٹرز نے افغان پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستانی دستوں نے مبینہ طور پر صوبے کنٹر کے ضلع ناری میں پیر سترہ اگست کے روز اس وقت سرحد پار سے فائرنگ شروع کر دی جب انہیں اپنی ایک سکیورٹی پوسٹ پر اپنے ایک فوجی کی لاش ملی تھی۔

روئٹرز نے مزید لکھا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے اپنے دور صدارت کے پہلے سال کے دوران خفیہ اداروں کے درمیان معلومات کے تبادلے جیسے اقدامات کے ذریعے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے لیکن اسی مہینے جب کابل میں متعدد بم دھماکوں میں درجنوں افراد مارے گئے تو اشرف غنی نے غصے میں پاکستان پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ افغانستان میں ’جنگ برآمد‘ کر رہا ہے۔

Afghanistan Anschlag am Flughafen Kabul
کابل کے ہوائی اڈے پر طالبان کے ایک ‍حالیہ حملے کے بعد کا منظرتصویر: Reuters/A. Masood

افغانستان میں، جہاں آج قومی یوم آزدی منایا جا رہا ہے، پاک افغان سرحدی علاقے میں حالیہ جھڑپوں اور ان میں افغان سرحدی پولیس کے اہلکاروں کی ہلاکتوں پر غم و غصہ ملکی دارالحکومت کابل کی سڑکوں تک پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔

آج بدھ کے روز کابل میں افغان یوم آزادی کو منانے کے لیے اپنے گھروں سے نکلنے والے شہریوں میں ایک محمد ضمیر نامی افغان باشندہ بھی شامل تھا۔ اس نے روئٹرز کو بتایا، ’’میں یوم آزادی منانے کے لیے گھر سے نکلا ہوں، ہم پاکستان کے خلاف خوشی منا رہے ہیں۔‘‘ روئٹرز کے مطابق جس وقت محمد ضمیر نامی اس افغان شہری نے ان خیالات کا اظہار کیا، عین اسی وقت کابل کے بہت سے شہری ڈھول کی تھاپ پر ان گھروں اور دکانوں کے ملبے کے سامنے ناچ رہے تھے، جو سات اگست کو ایک ٹرک پر لدے ہوئے دھماکا خیز مواد کے ساتھ کیے گئے ایک بہت بڑے بم حملے میں تباہ ہو گئے تھے۔

افغانستان کا یوم آزادی ہر سال انیس اگست کو منایا جاتا ہے اور یہ اس دن کی یاد تازہ کرتا ہے جب 1919ء میں اس وقت کے غیر منقسم برصغیر کے برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے افغانستان کی آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے افغانستان کی اس سرحد کو تسلیم کیا تھا، جو آج بھی پاکستان اور افغانستان کے مابین ڈیورنڈ لائن کہلاتی ہے۔

بہت سے افغان باشندوں کی رائے میں افغانستان کی خود ختاری کے لیے وہاں غیر ملکی فوجی دستوں کی موجودگی اور طالبان کی مسلح بغاوت ایک بڑے امتحان کی حیثیت رکھتی ہیں اسی تناظر میں افغان طالبان کی قیادت نے بھی کل منگل کے روز اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ’’افغان عوام کو اپنے وطن کی آزادی کے لیے آج بھی اسی طرح جنگ کرنی چاہیے جیسی ان کے اجداد نے نوآبادیاتی دور کے برطانوی حکمرانوں کے خلاف کی تھی۔