1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک بھارت تعلقات میں رکاوٹ عوام یا حکومتیں؟

رفعت سعید، کراچی3 نومبر 2015

تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں ہمسایہ ملکوں کے عوام کی اکثریت موجودہ مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے چاہتی ہے لیکن حکومتوں کے اپنے مسائل عوامی رابطوں کی راہ میں حائل ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Gywk
Flagge Pakistan und Indien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Sharma

کراچی کونسل آف فارن ریلیشن کی جانب سے منعقدہ سمینار میں وزیر اعظم نواز شریف کے معاون خصوصی طارق فاطمی اور سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے علاوہ بھارت کے سابق یونین وزیر اور کانگریسی رہنما مانی شنکر آئیر کو بھی خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے مانی شنکر نے کہا کہ بھارتی عوام کی اکثریت پاکستان کےساتھ تعلقات میں بہتری کی خواہش مند ہے اور مذاکرات کی میز پر ہی دونوں ممالک کے درمیان تنازعات حل ہوسکتے ہیں۔ دونوں حکومتوں کو نئی دہلی اور اسلام آباد کےعلاوہ بھی ویزا آفسز کھولنے چاہییں لیکن حکومتی تنازعات عوامی رابطوں میں رکاوٹ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اندرا گاندھی بھی مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بات کرتی تھیں۔ پاکستان صرف حریت کانفرنس کو مذاکرات شامل کرنا چاہتا ہے لیکن مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پوری کشمیری قیادت سے بات ہونی چاہیے، ’’صرف سرنگر کیوں، جموں اور لداغ کی قیادت کو بھی مذاکرات کا حصہ بنایا جائے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اگر دونوں ملک مذاکرات پر آمادہ ہوجائیں تو متنازعہ امور تین سال نہیں تین ماہ میں نہیں، تین ہفتوں میں حل ہو سکتے لیکن دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری میں میڈیا کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔‘‘

سیمنار سے خطاب میں سابق وزیر قانون چودھری اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ باہمی تنازعات کے حل میں تاخیر سے پاک بھارت تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، ’’دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کا حل ہونا بہت ضروری ہے، سمجوتا ایکسپریس، گجرات سانحہ اور بابری مسجد ایسے واقعات سے اقلیتیں خود کو غیر محفوظ تصور کر رہی ہیں لہذا ہتھیاروں کی دوڑ کے بجائے وسائل غربت کے خاتمے کے لئے استعمال ہونے چاہئیں۔‘‘

سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنے خطاب میں کہا کہ نریندر مودی سے پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لئے نا امیدی درست نہیں، ’’دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنا کر تجارتی حجم کو بڑھانا ہوگا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ مشرف دور میں دونوں ممالک میں مذاکرات کا فریم ورک تیار ہوگیا تھا لیکن بدقسمتی رہی کہ معاملات پھر بگڑ گئے۔

سمینار کے بعد میڈیا سے گفتگو میں خورشید محمود قصوری نے کہا کہ بھارت میں غلام علی کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ قابل افسوس ہے لیکن خطرات کے باوجود بھی بھارتی شہریوں نے غلام علی کو پرفارم کرنے کی دعوت دی، جو قابل ستائش ہے۔ انہوں نے تعلقات میں بہتری کے لئے وزیر اعظم نواز شریف کی کوششوں کو بھی سراہا، ’’دونوں ممالک کے عوام تعلقات کی بہتری کے لئے پر امید ہیں۔‘‘

پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمیشنر ٹی سی راگھوان نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت وہ واحد پڑوسی نہیں ہیں، جن کے تعلقات کشیدہ ہیں، دنیا کے کئی دیگر ممالک کے درمیان بھی کشیدہ حالات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس بھارت کی طرف سے مذاکرات میں پہل کی گئی تھی۔ دوسری جانب وزیر اعظم نواز شریف کے خصوصی معاون برائے امور خارجہ طارق فاطمی کہتے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات خطے کے امن کے لئے بہت اہم ہیں لیکن مسائل پر بات چیت کے لئے بھارت نے پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کا مثبت جواب نہیں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں عوامی رابطوں، کرکٹ، اداکاروں کی راہ میں بھی رکاوٹیں پیدا کی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’حقیقت یہ ہے کہ بھارت مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔‘‘

ان کا سوالیہ انداز میں کہنا تھا کہ کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کے پیچھے بھارت کے کیا مقاصد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ پاکستان مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ ہے اور مذاکرات سے مسائل حل کرنا چاہتا ہے لیکن سارے مسائل کوئی ایک ملک حل نہیں کر سکتا۔