1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک بھارت تنازعہ: ایٹمی ہتھیاروں کے ’تعمیری‘ کردار کی امید

Peter Sturm / امجد علی23 ستمبر 2016

کیا پاک بھارت تنازعے میں ایٹمی ہتھیار فریقین کو جنگ سے باز رکھنے کا وہی ’تعمیری‘ کردار ادا کریں گے، جو ان ہتھیاروں نے سرد جنگ کے دوران انجام دیا تھا؟ جرمن اخبار فرانکفرٹ الگمائنے کے پیٹر شٹورم کا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/1K767
Indien Kaschmir BSF Soldat
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa

مشرقِ وُسطیٰ، کوریا اور بحیرہٴ جنوبی چین جیسے خطّوں میں بے شمار تنازعات نے ایک ایسے تنازعے کو تقریباً نظروں سے اوجھل کر دیا ہے، جس میں ایک بڑی جنگ کے تمام تر امکانات موجود ہیں۔ کشمیر کے تنازعے میں بہرحال دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں ہونے والی بیان بازی کوئی اچھا شگون نہیں ہوتی، خصوصاً جب ان کا باہمی تنازعہ آج کل کی طرح پھر سے بھڑک اٹھتا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ جب کبھی بھی دونوں حکومتیں عدم کشیدگی کے اشارے دیتی ہیں، اُن کے درمیان کشیدگی شروع ہو جاتی ہے۔ غالباً ان دونوں ملکوں میں ایسی قوتیں موجود ہیں، جو اپنی اپنی حکومتوں کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔

Sturm Peter Frankenberger Frankfurter Allgemeine Zeitung
جرمن اخبار فرانکفرٹ الگمائنے کے پیٹر شٹورمتصویر: Frankfurter Allgemeine Zeitung

ایک اور مشکل یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی فریق ’پارسائی‘ کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ پاکستان کو لازماً یہ الزام سننا پڑتا ہے کہ جب کبھی بھی عسکریت پسند بھارتی زیر انتظام کشمیر یا بھارت میں دیگر مقامات پر خونریز حملے کرنے کے لیے لائن آف کنٹرول کو عبور کرتے ہیں تو پاکستان اُنہیں ہمیشہ کنٹرول نہیں کرتا۔ اُدھر بھارتی سکیورٹی فورسز بھی جزوی طور پر عاقبت نا اندیشی سے کی گئی اپنی کارروائیوں سے خطّے (کشمیر) کے بہت سے مسلمان شہریوں کو یہ تاثر دیتی نظر نہیں آتیں کہ وہ اُنہیں بھی ’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘ میں برابر کے شہری سمجھتی ہیں۔

ایک اور پہلو وقار اور انا کا ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے حکومت میں کوئی بھی ہو، دونوں ریاستیں اپنے اپنے انتہائی موقف کی اسیر بنی ہوئی ہیں۔ ایسے میں مفاہمت کے ہلکے سے اشارے کو بھی غداری کے برابر گردانا جاتا ہے۔ جو کوئی بھی بطور سیاستدان ایسی حکمتِ عملی کی وکالت کرتا ہے، وہ گویا اپنی جان سے کھیلتا ہے۔ فریقین کو مصالحت پر آمادہ کرنے کی بیرونی کوششوں کو اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا جاتا ہے، جیسا کہ بہت سی سابقہ نو آبادیوں میں ہوتا ہے۔

ان حالات کے پیشِ نظر ہمیں غالباً اسی بات پر خوش ہونا چاہیے کہ اب تک بات وقتاً فوقتاً ہونے والی جھڑپوں تک ہی محدود رہی ہے تاہم بھارت اور پاکستان کے درمیان ماضی میں کئی جنگیں ہو چکی ہیں، جن کے پیشِ نظر اب بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ سرد جنگ کے دور میں ایٹمی ہتھیار اس امر کی ضمانت تصور کیے جاتے تھے کہ کسی انتہائی صورتِ حال کی نوبت نہیں آئے گی۔ ممکنہ طور پر یہ ہتھیار ہمارے دور میں جنوبی ایشیا میں بھی یہی کردار ادا کریں گے۔ کاش ہم یہ بات یقینی طور پر کہہ سکتے!

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید