1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک بھارت مشترکہ اعلامیہ، دہلی میں سیاست گرم

17 جولائی 2009

بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کی مصر میں ملاقات کے بعد جاری مشترکہ بیان سے دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر آنے کی جو امید پیدا ہوئی تھی وہ ٹوٹتی نظر آرہی ہے۔بھارت میں اس پر سیاست گرم ہوگئی ہے۔

https://p.dw.com/p/IrlU
بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے مشترکہ اعلامیے پر شدید ردعمل ظاہر کیا گیا ہےتصویر: UNI

اپوزیشن نے اسے ملک کو کمزور کرنے اور پاکستان کے آگے جھک جانے کے مترادف قرار دیا۔ لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ بھارت اپنے اس دیرینہ موقف پر قائم ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر بہتر تعلقات ممکن نہیں ہیں۔

اپوزیشن کو دراصل وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور پاکستانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی ملاقات کے بعد جاری مشترکہ بیان کے اس جملے پر اعتراض ہے، جس میں دہشت گردی کے خلاف کارروائی کو جامع مذاکرات سے الگ رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔ اپوزیشن کا خیال ہے کہ اس سے ممبئی پر گذشتہ سال نومبر میں ہوئے حملے کو بات چیت سے باہر رکھنے کا اشارہ ملتا ہے۔

وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اپوزیشن کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے جمعہ کی روز خود پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں بیان دیا۔انہوں نے کہا: ’’ ہمارا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی طرح کی بات چیت دہشت گردی کے خاتمہ سے شرو ع ہونی چاہئے اور ہم اپنے اس موقف پر سختی سے قائم ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے دہشت گردی کے موضوع پر اور خاص کر ممبئی حملوں کے سلسلے میں سنجیدگی اور مضبوطی سے بھارت کا موقف رکھا۔

’’ میں نے وزیر اعظم گیلانی سے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کے خلاف مسلسل، مؤثر اور معتبر کارروائی ضروری ہے۔ نہ صرف ممبئی پر حملہ کے قصورواروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے سلسلے میں بلکہ دہشت گردی کے نیٹ ورک کے خلاف بھی، تاکہ مستقبل میں اس طرح کا کوئی حملہ نہ ہو۔‘‘ ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ بھارت پاکستان سے اچھے اور دوستانہ تعلقات چاہتا ہے تاکہ جنوبی ایشا میں خوشحالی اور ترقی کا ماحول پیدا ہو۔

Indien Pakistan Unabhängigkeitstag 2007 Feiern
ممبئی حملوں کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سخت تناؤ اور کشیدگی پیدا ہو گئی تھیتصویر: AP

لیکن اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی ڈاکٹر سنگھ کے اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئی اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں اس کے اراکین واک آوٹ کرگئے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے کہا کہ حکومت امریکی دباؤ میں آکر پاکستان کے آگے جھک گئی اور پاکستان کے ساتھ سمجھوتہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن بھارت پہنچ گئی ہیں۔ بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے حکومت سے پوچھا کہ آخر پچھلے سات ماہ کے دوران پاکستان کے رویے میں ایسی کیا تبدیلی آگئی ہے کہ وہ اس کے ساتھ بات چیت پر راضی ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ جب دہشت گردی اور بات چیت کو الگ الگ کرکے دیکھنا تھا تو اس کے لئے سات ماہ تک انتظار کیوں کیا گیا؟

وزیر اعظم ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ بات چیت کا راستہ اس لئے کھولا گیا ہے کہ اگر یہ راستہ بند کردیا گیا تو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لئے معلومات کا دروازہ بھی بند ہوجائے گا۔

بائیں بازو کی جماعتوں نے مشترکہ بیان کا خیرمقدم کیا لیکن کہا کہ یہ تضادات کا مجموعہ ہے۔ دوسری طرف حکمران کانگریس پارٹی نے مشترکہ بیان میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں ہونے سے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اس دوران ماہرین نے مشترکہ بیان پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بیان نہایت غیرواضح ہے اور دونوں رہنما اپنے عوام کو خوش کرنے کے لئے اپنے طور پراس کی تشریح کرسکتے ہیں۔ سیکیورٹی امور کے ماہر منوج جوشی نے کہا کہ پاکستان مذاکرات سے جو کچھ حاصل کرنا چاہتا تھا اس میں وہ کامیاب رہا۔ ’’ایسا لگتا ہے کہ مشترکہ بیان اسی کے لئے تیار کیا گیا ہے‘‘۔

سابق سفارت کار جی پارتھا سارتھی نے کہا : ’’گیلانی (پاکستانی وزیر اعظم ) کے بیانات پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا اور اگر دوبارہ دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے تو وزیر اعظم (ڈاکٹر سنگھ) کے لئے مشکلات کھڑی ہوجائیں گے۔ ‘‘

قومی سلامتی کے سابق مشیر برجیش مشرا کا کہنا ہے کہ مشترکہ بیان میں بلوچستان کا ذکر دراصل بھارت کے ’’ اعتراف جرم‘‘ کے مترادف ہے جو سفارتی لحاظ سے اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

یہا ں سرکاری حکام اس بات پر خوش ہیں کہ جون 1997 میں جامع مذاکرات کے فارمیٹ پر فریقین کی رضامندی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب جموں و کشمیر کو بات چیت کے دائرہ سے الگ رکھا گیا ہے۔

1973 کے شملہ سمجھوتے کے بعد سے بھارت۔ پاک باہمی مذاکرات سے کشمیر تقریبا غائب ہی ہوگیا تھا لیکن 1990کی دہائی کے اوائل میں بھارت مذاکرات کے دوران اسے ’’کشمیر سے متعلق امور‘‘ کے نام پر شامل کرنے پر رضامند ہوگیا۔ بھارت نے اس کی توضیح اس طرح کی کہ وہ اس کے تحت عسکریت پسندی اور سرحد پارسے ہونے والی دہشت کردی کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہے۔

Indien Pakistan Atal Bihari Vajpayee und Pervez Musharraf
سابق پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف اور بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئیتصویر: AP

نرسمہا راؤ کی قیادت والی کانگریس حکومت کے جانے کے بعد وزیر اعظم اندر کمار گجرال اور نواز شریف 1997 میں مالے میں منعقدہ سارک چوٹی کانفرنس کے دوران کشمیر کے معاملے پر ایک علیحدہ ورکنگ گروپ قائم کرنے پر رضامند ہوگئے۔ یہ سلسلہ2004 ء میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے اسلام آباد کے دورے تک جاری رہا۔ جب دونوں ملک’’جموں و کشمیر کے مسئلہ‘‘ کا حل تلاش کرنے پر راضی ہوگئے۔ پاکستان نے جہاں 1973 کے بعد پہلی مرتبہ بات چیت میں کشمیر کو شامل کئے جانے کو اپنی کامیابی قرار دیا وہیں بھارت کو بھی پاکستان کی اس یقین دہانی سے قدرے اطمینان ہوا کہ وہ اپنی سرزمین سے بھارت مخالف سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے گا۔

حالانکہ واجپئی الیکشن ہار گئے لیکن ان کے جانشین ڈاکٹر من موہن سنگھ اس موقف پر قائم رہے جس پر اسلام آباد میں صدر پرویز مشرف کے ساتھ اتفاق ہوا تھا۔

8 اپریل 2005 کو نئی دہلی میں دونوں رہنماؤں کے درمیان آخری ملاقات کے وقت جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا کہ ’’دونوں رہنماؤں نے جموں و کشمیر کے مسئلے پر غور کیا اور اس بات سے اتفاق کیا کہ اس مسئلے کی حتمی حل تک مخلصانہ اور بامقصد مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا۔‘‘

انہوں نے اس بات کا بھی عہد کیا کہ دہشت گردی کو امن مساعی کی راہ میں آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

کشمیر اور پاکستان امور کے ماہر اے جی نورانی کا خیال ہے کہ دونوں ملک کافی آگے بڑھ چکے ہیں اور اپنے مقاصد میں بالکل واضح ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 1948 کے بعد پہلی با ر2004 کے بعد ہی کشمیر پر دونوں ملکوں کے درمیان کوئی قابل ذکر بات ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا :’’ کشمیر پر اب بہت زیادہ سوچنے کے لئے کچھ نہیں ہے، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ جومفاہمت ہوئی ہے، سیاسی قوت ارادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے نافذ کردیا جائے‘‘۔

مشترکہ بیان میں بلوچستان اور دیگر علاقوں کے متعلق پوچھے جانے پر ایک سینئر بھارتی افسر کا کہنا ہے : ’’ اگر پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ بھارت کے کچھ ایسے لوگ ہیں جو اس کے لئے پریشانیاں پیدا کررہے ہیں تو ہمیں اس معاملے کو صاف کرکے خوشی ہوگی‘‘۔

مشترکہ بیان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ دونوں ملک مستقبل میں کسی بھی دہشت گردانہ خطرے کے متعلق معتبر اور قابل عمل اطلاعات کے تبادلے پر بھی راضی ہوگئے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی انٹلی جنس ایجنسیاں کسی میکانزم کے تحت ایک دوسرے سے مسلسل رابطہ میں رہیں گی۔

رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت : عاطف توقیر