1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک جوہری پروگرام: آلات فراہم کرنے کا شبہ، تین سوئس شہریوں کا مقدمہ

14 نومبر 2011

یورپی ملک سوئٹزرلینڈ میں دو بھائیوں اور ان کے والد کے خلاف برسوں کی تفتیش کے بعد اب پراسیکیوٹر مقدمے کی کارروائی سکیورٹی اور حساس معلومات کے تناظر میں بند کمرے میں کرنے کے خواہشمند ہیں۔

https://p.dw.com/p/13A3c
سوئس پولیس کئی سالوں سے اس مقدمے کی تفنیش میں مصروف ہےتصویر: AP

سوئس پراسیکیوٹرز کا ارادہ ہے کہ وہ ٹِنر (Tinner) برادرز اور ان کے والد کے مقدمے کو پبلک کورٹ میں شروع نہ کریں کیونکہ مشتبہ افراد کے رابطے اور معلومات کا تعلق خاصے حساس مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ مقدمے کی کارروائی کو بھی مختصر رکھا جائے۔ اب تک کی تفتیش اور معلوم شواہد کی بنیاد پر سوئٹزرلینڈ کی اعلیٰ فوجداری عدالت سے درخواست کی جائے کہ وہ ملوث افراد کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے سزائیں سنا دے۔

پاکستان کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کے آلات و معلومات کی فراہمی کا یہ مقدمہ امریکہ اور سوئٹزر لینڈ کے متعلقہ حکام کے لیے سیاسی طور پر انتہائی حساس نوعیت کا ہے۔ کئی قومی معاملات پر انگلیاں اٹھ سکتی ہیں۔ مشتبہ افراد کے امریکہ کی خفیہ ایجنسی CIA سے مبینہ روابط بھی دوران جرح سامنے آ سکتے ہیں۔ کئی برسوں سے جاری تفتیشی عمل کے دوران ایسے امکانات بھی ہیں کہ بعض شہادتی مواد ضائع ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مقدمہ سوئس جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے۔

اس حساس مقدمے میں ملوث اُرس ٹِنر (Urs Tinner) اور اس کے بھائی مارکو ٹِنرکے ہمراہ ان کے والد فریڈرش ٹِنر کو بھی حکام نے نگرانی میں رکھا ہوا ہے۔ اُرس ٹِنر سن 2008 میں پانچ سال کی قید کے بعد رہا کیا گیا تھا۔ اس کی یہ قید بغیر کسی چارج کے تھی۔ اس کے بھائی اور والد کو بھی پابند کیا گیا تھا۔

NO FLASH CIA Headquarters Hauptquartiers Logo Zentrale USA
امریکی خفیہ ادارہ بھی اس مقدمے میں دستیاب ثبوتوں کو تلف کرنے پر زور دیتا رہاتصویر: picture alliance/landov

ان کے خلاف جاری تفتیش کو ایک دہائی ہونے والی ہے۔ اُرس ٹِنر نے سن 2009 میں نشر ہونے والے ایک ٹیلی وژن انٹرویو کے دوران امریکی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کرنے کا اعتراف بھی کیا تھا۔ اس نے خان نیٹ ورک کے ساتھ رابطوں سے بھی انکار نہیں کیا تھا۔

ان بھائیوں نے جوہری ٹیکنالوجی اور معلومات ایک اسمگلنگ گروہ کو فراہم کیے تھے، جس کا تعلق ڈاکٹرعبدالقدیر خان کے نیٹ ورک کے ساتھ بتایا جاتا ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسی نے اُرس ٹِنر کے دعوے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس مقدمے کی گونج سارے سوئٹزر لینڈ میں سنی گئی اور سیاسی اور میڈیا کے تبصروں میں یہ بھی سامنے آیا کہ سوئس حکام پر امریکی خفیہ ایجنسی کا پریشر تھا کہ وہ دستیاب ثبوتوں کو ضائع کردے۔

یہ امر اہم ہے کہ سوئس دستور میں تفصیلی مقدمہ چلائے بغیر ملوث افراد کو اعلیٰ فوجداری عدالت سے ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر قصور وار قرار دیتے ہوئے سزا سنائی جا سکتی ہے۔ اس مقدمے کے بارے میں تفصیلات سوئس شہر زیورخ سے چھپنے والے زونٹاگ سائٹُنگ میں شائع کی گئی ہیں۔ سوئس محکمہ استغاثہ کی جانب سے اخبار کی رپورٹ پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں