1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پروین راؤ کا ایک روپیہ اسکول، غریب بچوں کے لیے علم کی روشنی

عنبرین فاطمہ1 مارچ 2016

کراچی میں خدا کی بستی‘ نامی ایک پسماندہ علاقے میں پروین راؤ غریب گھرانوں کے بچوں کے لیے ایک شاندار اسکول چلاتی ہیں۔ علم کی شمع جلاتے اس اسکول میں بچے صرف ایک روپے کے عوض معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1I4z0
Local Heroes DW Urdu
تصویر: DW

’خدا کی بستی‘ میں رہنے والے بیشتر افراد یا تو مزدور پیشہ ہیں یا پھر بے روزگار۔ ایسی جگہ ’عملِ دانش‘ نام کا اسکول بستی میں رہنے والے بچوں کو صرف ایک روپے کی فیس کے عوض نہ صرف زیور تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے بلکہ انہیں ہنرمند بنانے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے۔ ان سب کاوشوں کے پیچھے پروین راؤ نامی خاتون ہیں، جنہوں نے اپنے بل بوتے پر بیس سال قبل اس اسکول کی بیناد رکھی تھی۔

ایسے دور میں، جب اسکول کھولنے کے پیچھے زیادہ تر کاروباری فوائد پیش نظر رکھے جاتے ہیں، انتہائی کم فیس کے عوض تعلیم دینے کے پیچھے کیا خیال کار فرما تھا، اس حوالے سے پروین راؤ بتاتی ہیں، ’’ابتدا میں میرا ایسا کبھی ارادہ رہا نہیں تھا کہ میں کوئی اسکول کھولوں گی۔ میں سائنس پڑھنا چاہتی تھی، خاص طور سے اسپیس سائنس۔ تاہم تعلیم میں نجی وجوہات کے باعث ایک تعطل آیا اور میں کچھ عرصے کے لیے تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ پائی۔ کچھ عرصے بعد تعلیمی سلسلہ ایک بار پھر جوڑ تو لیا لیکن جو بننا چاہتی تھی، وہ نہ بن سکی۔ پھر شادی ہو گئی لیکن یہ خیال ذہن میں رہا کہ میں ایسے بچوں کو وقت پر تعلیم دینے میں مدد کروں، جو کچھ بننا چاہتے ہیں، شاید تب ہی میری زندگی کا صحیح استعمال ہو سکے۔ تب میں نے کم فیس میں بچوں کو تعلیم دینے کا فیصلہ کیا۔‘‘

Pakistan Amal e Danish school Parveen Afshan Rao
چار کمروں سے شروع ہونے والا یہ اسکول اب بیس کمروں کی ایک عمارت میں تبدیل ہو چکا ہےتصویر: Amal e Danish School

پروین راؤ بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت وہاں کوئی اسکول نہیں تھا:’’سوائے ایک دو نجی اسکولوں کے، جو پچاس روپے فیس لیتے تھے۔ جب میں نے اسکول شروع کیا تو یہی سوچ رکھا تھا کہ انہیں کم ترین پیسوں میں تعلیم دوں گی۔ ابتدا میں فیس تیس روپے رکھی گئی۔ اس وقت پتہ چلا کہ بہت سے والدین تیس روپے بھی نہیں دے سکتے تھے۔ تب میں نے ان والدین سے کہا کہ اگر ایک روپیہ بھی اپنی جیب سے دے کر تعلیم دلوا سکتے ہو تو میں ان کو پڑھاؤں گی لیکن ان بچوں کو تعلیم ضرور دلواؤ۔ اس طرح صرف ایک روپے میں تعلیم دی جانے لگی۔ یہ ایک روپیہ بھی اس لیے رکھا تاکہ ان بچوں اور ان کے والدین کی عزت نفس مجروع نہ ہو۔‘‘

اسکول کا آغاز 1996ء میں سرجانی ٹاون میں کرائے کے ایک مکان سے کیا گیا اور اس اسکول کو کھولنے کے لیے پروین راؤ نے فنڈنگ خود ہی کی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر پرنٹنگ پریس کا کاروبار شروع کیا تاکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم سے اسکول کے لیے مالی وسائل کا مسئلہ حل کیا جا سکے۔

Pakistan Amal e Danish school
اسکول کا آغاز 1996ء میں سرجانی ٹاون میں کرائے کے ایک مکان سے کیا گیاتصویر: Amal e Danish School

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جیسے جیسے اسکول میں بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، فنڈنگ کا مسئلہ بڑھتا چلا گیا۔ ان سب مسائل کے باوجود پروین راؤ نے بتایا کہ چار کمروں سے شروع ہونے والا یہ اسکول اب بیس کمروں کی ایک عمارت میں تبدیل ہو چکا ہے اور یہاں آج کل آٹھ سو سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔ اس کے علاوہ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ لاہور، سرگودھا اور مظفر نگر میں بھی ’عملِ دانش‘ اسکولوں کی بنیاد رکھی جا چکی ہے، جہاں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

اس اسکول کی خاص بات صرف یہی نہیں کہ اسے نہایت کم فیس میں چلایا جا رہا ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ کم خرچ میں چار مختلف طرح کی تعلیم دینے والے اسکول ایک ہی عمارت میں بنائے گئے ہیں۔ اس اسکول کے منصوبے کو ’ڈائمینشن اسکول فور‘ یا چو مکھی تعليم گاہ کا نام دیا یے اور اس کو اسی نام سے رجسٹر بھی کروایا گیا ہے۔ اس حوالے سے پروین راؤ بتاتی ہیں:’’اس کے تحت چلنے والے تعليمی ادارے چار مختلف جہتوں ميں کام کرتے ہیں۔ ان میں پہلی جہت ريگولر اسکول ہے، جہاں ایک روپے میں تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن ہم اس میں جمعے اور ہفتے کے دن فائن آرٹس کرواتے ہیں اور پیشہ ورانہ تربیت کا تعارف کرواتے ہیں کہ اگر آپ بہت آگے تک نہیں پڑھ لکھ سکتے تو کم از کم کوئی ہنر ہی سیکھ لیں۔ تو ہم تین ہنر اسکول میں سکھاتے ہیں اور باقی ہنر کیا ہیں، ان کا تعارف کرواتے ہیں۔‘‘

اس کی دوسری جہت فاسٹ ٹريک اسکول ہے۔ اس بارے میں پروین بتاتی ہیں:’’اس وقت پورے پاکستان میں ایسا کوئی نظام نہیں کہ جن بچوں کی عمر بڑھ جائے، ان کو بھی اسکول میں داخلہ مل جائے۔ میں نے اپنے اس اسکول میں ’تیز رفت اسکول‘ کے نام سے ایک جہت بنا دی ہے۔ پوری بستی کے وہ بچے، جو دس بارہ برس کی عمر کے ہو جاتے ہیں، وہ یہاں داخلہ لے سکتے ہیں۔ یہاں سے وہ تین سال کا کورس کر سکتے ہیں، جس میں چھ جماعتوں کا کورس کروایا جاتا ہے یعنی سال میں دو کلاسز۔ اس کورس کو بیس برس کی ریسرچ اور محنت سے تیار کیا گیا ہے۔‘‘

پروین بتاتی ہیں کہ اس اسکول میں داخلہ لینے والے بچوں کو ہی نہیں بلکہ اسکول سے باہر کسی وجہ سے داخلہ نہ لینے والے بچوں کو بھی پڑھانے کا انتظام کیا گیا ہے:’’اس کی تیسری جہت ہے کميو نٹی تعليم، جس کے تحت ہمارے بچے اسکول سے باہر ایک سال میں کسی ایک اور بچے کو تعلیم یافتہ بناتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہم نے ایک ٹیچر بھی مختص کر رکھی ہے، جو ان خواتین کو تعلیم دیتی ہے، جو ہمارے پاس آ کر کچھ گھنٹے پڑھنا چاہتی ہیں۔‘‘

Pakistan Amal e Danish school Parveen Afshan Rao
اس اسکول کے بچے اسکول سے باہر ایک سال میں کسی ایک اور بچے کو تعلیم یافتہ بناتے ہیںتصویر: Amal e Danish School

اس اسکول سسٹم کی چوتھی جہت، جو پورے پاکستان کے لیے نہایت اہم ہے، وہ ہے، ٹيچرز ٹريننگ اينڈ ايجوکيشن سپورٹ۔ اس حوالے سے پروین بتاتی ہیں:’’ اس کے تحت ہم ٹیچرز کو یہاں ٹریننگ دیتے ہیں جس کی تکمیل کے بعد انہیں قرضہ دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اگر کالج میں اپنی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں تو ہم سے قرضہ لے کر اپنی تعلیم مکمل کریں اور شام میں ہمارے اسکول میں پڑھائیں۔ اس کے تحت میرے پاس چھ ایسی ٹیچرز ہیں، جنہوں نے میرے ہی اسکول سے تعلیم حاصل کی اور اب پڑھا بھی رہی ہیں اور اپنی تعلیم بھی جاری رکھی ہوئے ہیں۔‘‘

پروین راؤ کہتی ہیں کہ پاکستان ميں فور ڈائمینشنل اسکول سسٹم ایک انقلابی نظام ہے، جس کے ذريعے کم خرچ اور کم وقت ميں بے شمار اسکولوں کو چومکھی تعليم گاہوں ميں تبديل کيا جا سکتا ہے اور ہزاروں تربيت يافتہ اساتذہ تيار کرنے اور پھر ان اساتذہ کے ذريعے لاکھوں طالب علموں کو معياری تعليم دينے کا کام آسانی سے انجام پا سکتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید