1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پمز ہسپتال میں معذور لڑکی سے مبینہ جنسی زیادتی

امتیاز احمد12 اپریل 2016

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کو ایک اور اسکینڈل نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس ہسپتال کے سرجیکل یونٹ کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج بیس سالہ معذور لڑکی کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1ITjL
Ägypten Initiative Can i give you a flower
تصویر: DW/R. Mokbel

پولیس کی طرف سے یہ کیس درج کر لیا گیا ہے اور پاکستانی وزیراعظم کی ایک خصوصی ٹیم بھی اس کی نگرانی کر رہی ہے۔ پولیس نے ہسپتال پر الزام عائد کیا ہے کہ ملزم کے فرار ہونے میں ہسپتال انتظامیہ کا ہاتھ ہے جبکہ پمز انتظامیہ نے اس الزام کو مسترد کیا ہے۔

دریں اثناء ہسپتال انتظامیہ نے کہا ہے کہ ملزم کو معطل کر دیا گیا ہے۔

دوسری جانب بیس سالہ متاثرہ لڑکی کے والد نے پیر کی شام صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سارا معاملہ ’’غلط فہمی‘‘ کا نتیجہ ہے اور وہ اس کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہتے۔ دوسری جانب پولیس نے کہا ہے کہ مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی کے والد کے دستبردار ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ یہ مقدمہ پمز انتظامیہ کی طرف سے درج کروایا گیا ہے۔

پمز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ ان کی طرف سے پولیس میں شکایت اس وقت درج کروائی گئی تھی، جب لڑکی کے والد نے انہیں بتایا تھا کہ ہفتے کی شب ایک مرد نرس نے ان کی بیٹی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے، ’’ہماری پولیس حکام کے ساتھ ایک ملاقات ہوئی تھی، جس میں تفتیش کے لیے ایک کمیٹی بنانے پر اتفاق ہوا تھا۔‘‘

بتایا گیا ہے کہ بائیس سالہ ملزم کا تعلق راولپنڈی کے قریبی علاقے شکریال سے ہے اور وہ گزشتہ دو برسوں سے پمز ہسپتال میں کام کر رہا ہے۔ ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد تمام مرد نرسوں کو خواتین مریضوں کا علاج کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

ٹوئٹر کے ایک صارف ارسلان الطاف تنقید کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں لکھتے ہیں کہ مرد نرسوں کو اس ڈر کی وجہ سے روک دیا گیا ہے کہ وہ خواتین مریضوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ کیا ہی ملک ہے؟

ڈاکٹر اکرم کے مطابق معذور لڑکی نے اس بارے میں سب سے پہلے اپنی والدہ کو بتایا تھا اور اس کے بعد یہ بات متاثرہ لڑکی کے والد تک پہنچی۔ پمز انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر لڑکی کے والد نے ملزم کو معاف بھی کر دیا تو انتظامیہ اس کیس کو واپس نہیں لے گی کیوں کہ یہ کیس پوری میڈیکل کمیونٹی کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہے۔

سوشل میڈیا یوزر واصف عابدی کہتے ہیں کہ یہ ایک انتہائی قابل مذمت واقعہ ہے۔ اس کی تفتیش بھی ہونی چاہے اور متاثرہ لڑکی کو انصاف بھی ملنا چاہیے۔