1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ کی درخواست پر کارروائی ميں مترجم کا کردار انتہائی اہم

عاصم سلیم Holly Young
23 نومبر 2017

جرمنی ميں پناہ کے متلاشی افراد کو دستاويزی کارروائی کے ليے مترجم کی ضرورت پڑتی ہے، جو ان کی بات سچائی کے ساتھ متعلقہ حکام تک پہنچا سکيں۔ تاہم در حقيقت اکثر مترجم نا تجربہ کار ہوتے ہيں اور سچائی سے کام بھی نہيں کرتے۔

https://p.dw.com/p/2o6df
Deutzschland Bundesamt für Migration und Flüchtlinge in Bingen am Rhein
تصویر: picture-alliance/dpa/F. von Erichsen

الہاريتھ آلا کافی پريشان بيٹھا تھا۔ وفاقی جرمن دفتر برائے اميگريشن و مہاجرين کے ايک اہلکار کے ساتھ کچھ ہی دير ميں صبح کے ساڑھے آٹھ بجے اس کی ملاقات تھی جس ميں وہ اہلکار آلا کے ماضی کا جائزہ ليتے ہوئے اس کے مستقبل کا فيصلہ کرنے والا تھا۔ اس کا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا۔ الہاريتھ آلا کو اپنے آبائی ملک عراق ميں اپنی زندگی، موصول ہونے والی دھمکيوں، اغواء ہونے، اپنے والد کے قتل وغيرہ کے بارے ميں تمام تفصيلات بيان کرنا تھيں اور وہ بھی قانونی سطح کی باريکی کے ساتھ۔ اگلے قريب چار گھنٹوں ميں اس نے متعلقہ افسر کے سامنے اپنا ماضی بيان کيا۔ الہاريتھ نے تفصيلات عربی زبان ميں بيان کيں، جنہيں ايک مترجم نے افسر تک جرمن زبان ميں پہنچايا۔

يہ عراقی پناہ گزين خود تو نہيں جانتا تھا کہ اس کا انٹرويو کيسا گيا ليکن وہ پر اعتماد تھا۔ بعدازاں انٹرويو لينے افسر نے اس سے کہا کہ جرمنی کو اس جيسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ الہاريتھ پانچ زبانيں بولنے کی صلاحيت رکھتا ہے اور وہ پيشے کے اعتبار سے ايک کيميا دان ہے۔ اپنی زندگی ميں ايک موقع پر آلا مترجم کے طور پر بھی ملازمت کر چکا تھا، اسی ليے وہ اس سے واقف تھا کہ مترجم کا صحيح ہونا، اس کے کيس کے ليے کتنا اہم تھا۔

آٹھ ماہ بعد اسے ايک خط موصول ہوا، جس ميں اسے بتايا گيا کہ اس کی سياسی پناہ کی درخواست مسترد ہو گئی ہے۔ الجھن اور پريشانی کے شکار آلا نے وفاقی جرمن دفتر برائے اميگريشن و مہاجرين کے آفيسر کے ساتھ ہونے والی تمام گفتگو کا ترجمہ کرايا اور پھر جا کر اسے معلوم ہوا کہ در اصل اس کا مترجم عربی زبان صحيح طريقے سے نہيں جانتا تھا، جس سبب اس نے کئی جوابات کا ترجمہ بالکل ہی غلط کيا۔ آلا کے ليے يہ تجربہ ايک زندگی بدل دينے والا تجربہ ثابت ہوا۔

’تربیت اور کام دو، ملک بدر نہ کرو‘

جرمنی ميں کام کرنے والی ايک غير سرکاری تنظيم ’پرو ازيل‘  وفاقی جرمن دفتر برائے اميگريشن و مہاجرين ميں يہ معاملہ اٹھا چکی ہے۔ اس تنظيم کے ساتھ منسلک ايک قانونی ماہر بيلنڈا بارٹلوچی کہتی ہيں کہ مترجموں کو فری لانسرز کے طور پر رکھا جاتا ہے اور انہيں اجرتيں بھی کم دی جاتی ہيں۔ ان کے بقول کچھ عرصے قبل تک تو ان کی قابليت پر بھی زيادہ دھيان نہيں ديا جاتا تھا، گو کہ اب يہ تبديل ہو چکا ہے۔

وفاقی جرمن دفتر برائے اميگريشن و مہاجرين يا (BAMF) کے ترجمان کے مطابق سن 2015 ميں بہت بڑی تعداد ميں مہاجرين کی آمد کے سبب ادارے کو بھی کئی انتظامی مسائل کا سامنا رہا۔ ترجمان نے مزيد بتايا، ’’پچھلے ايک سال کے عرصے ميں سياسی پناہ کے متلاشی 445,000 مہاجرين کے انٹرويو ليے گئے اور وہ بھی مختلف زبانوں ميں۔ اس کے ليے متعدد مترجم درکار تھے۔‘‘ ادارے کے مطابق پچھلے سال قريب 2,600 مترجم اس کے ساتھ منسلک تھے اور رواں سال ستمبر ميں يہ تعداد ساڑھے سات ہزار کے لگ بھگ تھی۔