1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ گاہوں ميں شامی پناہ گزين تنہائی اور اداسی کا شکار

عاصم سليم11 جنوری 2016

شام ميں خانہ جنگی کے سبب لاکھوں شامی پناہ گزين پڑوسی ممالک منتقل ہو چکے ہيں۔ اگرچہ اردن اور ديگر ملکوں ميں موجود يہ تارکين وطن پناہ گاہوں تک پہنچ چکے ہيں تاہم جنگ و جدل کی تلخ ياديں ان کا دامن نہيں چھوڑتيں۔

https://p.dw.com/p/1HbSO
تصویر: Reuters

پينتيس سالہ شامی پناہ گزين ايملين محمود الياس تين بچوں کی والدہ ہيں۔ اردن کی ايک پناہ گاہ ميں ديگر شامی اور اردنی والدين کے ساتھ گفت و شنيد کرتے ہوئے انہيں اچانک وہ وقت ياد آ جاتا ہے جب وہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کو موت کے راستے پر ڈالتے ہوئے شام سے فرار ہوئی تھيں۔ سرحد پر ايک کھائی کے اندر چھپ کر وہ اپنے خاوند اور تين بچوں کو ساتھ زندگی اور موت کے کشمکش سے گزر رہی تھيں جب کہ آس پاس دھماکے ہو رہے تھے۔ اسی لمحے ايملين محمود الياس کو يقين ہو گيا تھا کہ اگر اس دن ان کی جان بچ بھی گئی، تو ان کا ذہن کبھی اس تجربے کو بھلا نہيں پائے گا۔ تاہم انہيں کيا معلوم تھا کہ دو برس بعد اردن کے شہر زرقا ميں وہ اپنے جيسے ديگر شامی و عراقی پناہ گزينوں کی مدد کر رہی ہوں گی۔

شامی دارالحکومت دمشق سے فرار ہونے کے تقريباً دس ماہ بعد زاتاری کيمپ ميں آمد پر الياس خاندان کے استقبال کے ليے دھول، مٹی اور نا اميدی کے سوا کچھ بھی نہيں تھا۔ ايملين محمود الياس نے نيوز ايجنسی آئی پی ايس کو بتايا، ’’ميں نے خود سے يہ وعدہ کيا تھا کہ اگر ميں اس کيمپ سے نہيں نکل سکی تو شام ہی واپس چلی جاؤں گی خواہ جان ہی کيوں نہ چلی جائے۔‘‘ زاتاری کيمپ ميں کچھ ہی روز قيام کے بعد الياس خاندان نے انسانوں کے ايک اسمگلر کو کچھ رقم دی اور اردن کے زرقا کيمپ تک پہنچنے ميں کامياب ہو گئے۔

شام ميں مارچ سن 2011 سے خانہ جنگی جاری ہے
شام ميں مارچ سن 2011 سے خانہ جنگی جاری ہےتصویر: Reuters

آہستہ آہستہ ان لوگوں کے حالات بدلتے گئے۔ کچھ عرصے بعد ايملين کے خاوند کو ملازمت مل گئی۔ ليکن ان کے شب و روز پھر بھی ماضی کی يادوں ميں ہی گزرتے۔ ايملين بتاتی ہيں کہ جنگ کے تلخ حقائق اور مشکل ادوار کے بارے ميں بات کرنے کے ليے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ بتاتی ہيں، ’’ميں گھر ميں تنہا، اداس بيٹھی رہتی تھی اور ہر چير کا قصور وار اپنے خاوند کو قرار ديتی تھی۔‘‘ اپنے آبائی ملک شام ميں ايملين محمود الياس سرکاری ملازمت کرتی تھيں، وہ پبلک سيکٹر ميں کرپشن پر نگاہ رکھنے والی وزارت کے مانيٹرنگ کے محکمے کی ملازمہ تھيں تاہم اردن ميں وہ ايک گمنام اور اداس زندگی گزار رہی ہيں۔

اردن کی آبادی ساڑھے چھ ملين ہے اور اب تقريبا 2.77 ملين پناہ گزين بھی وہاں مقيم ہيں۔ مقامی حکام اور امدادی تنظيميں خبردار کر رہے ہيں کہ اب اکثريتی مہاجرين کيمپوں ميں نہيں بلکہ شہری علاقوں ميں موجود ہيں۔ زرقا ملک کے شمال مشرقی حصے ميں قائم ہے اور مجموعی طور پر پانچ لاکھ پناہ گزين مقيم ہيں، جن ميں سے شاميوں کی تعداد قريب پچاس ہزار ہے۔