1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ گزينوں کی مدد ميں غريب ممالک نماياں، امير ملک بہت پيچھے

عاصم سلیم
4 اکتوبر 2016

ايمنسٹی انٹرنيشنل کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق دنيا ميں موجود قريب اکيس ملين مہاجرين کے چھپن فيصد کو دس ممالک ميں پناہ دی گئی ہے۔ رپورٹ ميں پناہ گزينوں کی غير منصفانہ تقسيم پر امير ممالک پر کڑی تنقيد کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2QqgF
Griechenland Flüchtlings-Chaos auf Lesbos
تصویر: DW/D. Tosidis

انسانی حقوق کے امور پر نظر رکھنے والی عالمی تنظيم ايمنسٹی انٹرنيشنل نے انکشاف کيا ہے کہ مسلح تنازعات کی شکار ریاستوں کے پڑوسی ممالک پناہ گزينوں کا سب سے زيادہ بوجھ اٹھا رہے ہيں۔ منگل چار اکتوبر کو برطانوی دارالحکومت لندن سے جاری کردہ اس رپورٹ کے مطابق اس وقت عالمی سطح پر تقريباً اکيس ملين افراد پناہ گزينوں کی حيثيت سے رہ رہے ہيں، جن کی چھپن فيصد تعداد صرف دس ملکوں ميں مقيم ہے۔ تنظيم نے غير منصفانہ تقسيم کے اس مسئلے کے حل کے ليے ايک تجويز پيش کی ہے جس کے مطابق ہر سال پناہ گزينوں کی مجموعی تعداد کے دس فيصد حصے کو مختلف ممالک ميں بسايا جا سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين (UNHCR) کے مطابق شام، افغانستان، برونڈی، جنوبی سوڈان اور ديگر ممالک ميں جاری مسلح تنازعات کے سبب اس وقت عالمی سطح پر پناہ گزينوں کی مجموعی تعداد لگ بھگ 21.3 ملين ہے۔ اس ميں سے چھپن فيصد پناہ گزين اردن، لبنان، ترکی، پاکستان، ايران، چاڈ، ايتھيوپيا، کينيا، يوگينڈا، کانگو اور ايران ميں رہائش پذير ہيں۔ يو اين ايچ سی آر کے ترجمان وليم اسپنڈلر نے اس بارے ميں جاری کردہ ايک حاليہ بيان ميں کہا، ’’مہاجرين کو پناہ فراہم کرنے کی ذمہ داری اس وقت غير منصفانہ بنيادوں پر تقسيم ہے۔‘‘

Afghanistan Flüchtlinge Registrierung
پاکستان مں رجسٹرڈ افغان مہاجرين کی تعداد ڈيڑھ ملين سے زائد ہےتصویر: DW/F. U. Khan

ايمنسٹی کی رپورٹ ميں کہا گيا ہے کہ پناہ گزينوں کی غير منصفانہ تقسيم مہاجرين کے بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہے کيونکہ کئی ميزبان ممالک غريب ممالک ہيں اور وہ پناہ گزينوں کی ضروريات پوری نہيں کر پاتے۔ نتيجتاً پناہ گزين يورپ اور آسٹريليا جانے کے ليے خطرناک راستے اختيار کرتے ہيں۔

ايمنسٹی انٹرنيشنل ميں عالمی امور کے ڈائريکٹر اوڈری گوگہرن نے بذريعہ ٹيلی فون ديے اپنے ايک انٹرويو ميں کہا، ’’بچوں کو تعليم کی سہولت ميسر نہيں اور لوگوں کو خوراک نہيں مل رہی۔‘‘ انہوں نے اس صورتحال کو ’غير منصفانہ اور غير مستحکم‘ قرار ديا۔ ايمنسٹی نے مالی اعتبار سے امير ممالک پر زور ديا ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق مہاجرين کو پناہ فراہم کريں۔ ادارے کے سيکرٹری جنرل سليل شيٹی کے بقول مسئلہ يہ نہيں کہ پناہ گزينوں کی تعداد کتنی ہے بلکہ مسئلہ يہ ہے کہ دنيا کے امير ترين ممالک مستحق مہاجرین کو مدد اور پناہ فراہم کر نے میں سب سے پیچھے دکھائی دے رہے ہیں۔