1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پولیس والے کو چھیا چھیا گانا مہنگا پڑ گیا

6 اپریل 2011

انڈونیشا کے ایک پولیس اہلکار کو دوران ڈیوٹی بھارتی گیت گانے اور ناچنے کے ’جرم‘ پر ممکنہ سزا سے بچانے کے لیے ہزاروں افراد نے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/10non

یوٹیوب پر ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے۔ اس ویڈیو میں انڈونیشیا کا پولیس اہلکار ’نورمان کمارو‘ پولیس وردی میں ملبوس مشہور بھارتی گانے ’چل چھیا چھیا‘ پر ہونٹ ہلاتے اور ڈانس کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ صوبہ گرونتالو کے ایک پولیس سٹیشن پر بنائی گئی اس ویڈیو میں اس کے ساتھی بھی نظر آ رہے ہیں۔ ویڈیو منظر عام پر آتے ہی ٹوئٹر اور فیس بک کے ذریعے پورے انڈونیشیا میں وائرس کی طرح پھیل گئی ہے۔

صوبائی پولیس کے ترجمان ولسن دمانیک کا کہنا ہے کہ 26 سالہ کمارو موبائل بریگیڈ یونٹ کا اہلکار ہے اور اسے اس غیر اخلاقی حرکت پر سزا دی جا سکتی ہے۔ وی وا نیوز ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ پولیس یونیفارم پہنے ہوئے تھا اور دوسرا یہ کہ اس نے یہ حرکت تب کی، جب وہ ڈیوٹی پر تھا۔‘‘

Susilo Bambang Yudhoyono
صدر یودھویونو بامبانگ کے اب تک تین البم ریلیز ہو چکے ہیںتصویر: AP

انڈونیشیا کے انٹرنیٹ صارفین کی طرف سے اس بیان پر انتہائی تنقید کی جا رہی ہے اور پولیس اہلکار کی حمایت میں فیس بک پر ایک پیج بھی بنا دیا گیا ہے۔ ٹوئٹر پر ایک صارف کی طرف سے لکھا گیا ہے، ’’ ایک پولیس اہلکار کو گانے اور ڈانس کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، جبکہ ہمارے صدر گیت بھی گا سکتے ہیں اور ان کی سی ڈیز بھی ریلیز کر سکتے ہیں۔‘‘؟

اس صارف کا اشارہ انڈونیشا کے صدر یودھویونو بامبانگ کی طرف ہے، جن کے اب تک تین البم ریلیز ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب انڈونیشیا کی سیاسی شخصیات بھی اس معاملے میں شریک ہو چکی ہیں۔ وہاں کی ایک بڑی پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین ’بارا ہاسی باؤن‘ نے اپنی ٹوئٹر پوسٹ میں لکھا ہے کہ پولیس اہلکار نے نہ تو چوری کی ہے اور نہ ہی کسی کا قتل کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اہلکار کی بجائے ان اعلیٰ حکام کے خلاف تحقیقات کرنی چاہیے، جنہوں نے معمولی تنخواہوں کے باوجود بڑے بڑے بنگلے بنا رکھے ہیں۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: شادی خان سیف