1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

27 دسمبر 2017

برصغیر کے اُردو اور فارسی کے عظیم ترین شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کے 220 ویں یوم پیدائش پر ڈوئچے ویلے کا شعبہ اُردو انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2Uv0R
Mirza Ghalib
تصویر: Public Domain

ادب، فن و ثقافت اور لسانیات کے شعبوں سے تعلق رکھنے والی کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کے اس دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی اُن کی خدمات کے سبب انہیں ہمیشہ یاد کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ اپنے فکری سرمائے، اپنی ناقابل فراموش تحریروں یا اپنی ہمیشہ روشنی پھیلاتی ہوئی شاعری اور فن کے ذریعے زندہ رہتے ہیں۔

برصغیر کی تاریخ کے اہم ترین ابواب میں سے ایک وہ باب ہے جس کا تعلق اس خطے میں جنم لینے والی ایک ایسی ثقافت سے ہے جس میں بہت سی قدیم تہذیبوں کا رنگ اور مختلف زبانوں کی چاشنی پائی جاتی ہے۔ انیسویں صدی میں برصغیر میں ایک ایسی زبان جو ارتقائی منازل طے کر لینے کے بعد اپنے جوبن پر تھی، کو عالمی سطح پر نہ صرف مقبولیت حاصل ہوئی بلکہ اسے ایک خوبصورت گلدستے کی طرح ہر محفل کی زینت بنایا جانے لگا۔ یعنی اُردو زبان نے بہت کم وقت میں اپنی خوشیو بہت تیزی سے پھلائی۔ اس سب کا سہرا اُردو کے بہت سے قد آور ادباء اور شعرا کے سر بھی ہے۔

غالب کا یوم وفات: شہر میں اک چراغ تھا، نہ رہا
’’ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں‘‘

یوں تو بہت سے شاعروں نے اُردو کی ترقی اور اس کی عالمی شہرت میں اہم کردار ادا کیا ہے تاہم اُردو شاعری میں پائی جانے والی چند بنیادی خصوصیات کو اس زبان اور اُردو لسانیاتی ثقافت کا منفرد اورانوکھا حصہ بنانے میں اسد اللہ خان غالب کی جو خدمات ہیں اُن کا ذکر گویا چھوٹا مُنہ اور بڑی بات ہے۔

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا 

برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں ترک نسل سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے میں آنکھ کھولنے والے مرزا اسد اللہ خان کا انتقال 1869ء میں ہوا۔ بہت ہی کم سنی، قریب 11 سال کی عمر میں مرزا غالب نے شعر و شاعری شروع کر دی تھی۔

غالب کے آباؤ اجداد کا تعلق وسطی ایشیا سے تھا اور فارسی زبان اُس وقت برصغیر میں شاہی دربار سے لے کر تمام اشرفیہ اور تہذیب و تمدن کے گہواروں میں عام تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا اسد اللہ کی شاعری کا ایک بڑا حصہ فارسی میں ہی ہے۔ اُردو زبان میں فکری گہرائی اور لسانیاتی تنوع کا جو امتزاج پایا جاتا ہے وہ ایک قوس قزح کے مانند ہے جس کے  تمام رنگ غالب کے ایک ایک شعر میں دکھائی دیتے ہیں۔

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے

 اسی غزل کا ایک اور شعر ہے جسے پڑھنے والا سر دھنے بغیر نہیں رہ سکتا۔

ساقی بہ جلوہ دشمن ایمان و آگہی

مطرب بہ نغمہ رہزن تمکین و ہوش ہے

یہ چند اشعار ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ غالب کی شاعری میں وزن کا تعلق فارسی الفاظ کے استعمال سے تو ہے ہی لیکن ان کی شاعری میں جو فکری گہرائی ہے وہ انہیں دیگر شعراء سے ممتاز بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اُردو ادب و شاعری کی شد بُد رکھنے والے خواتین و حضرات اسد اللہ خان غالب کی شاعری کے ساتھ ساتھ  اُن کی زندگی کے حالات سے بھی واقف ہوں گے۔

یہاں اُن تمام عوامل اور عناصر کا ذکر کرنا ممکن نہیں جن کے گہرے اثرات غالب کے اشعار میں نمایاں نظر آتے ہیں لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شدید ترین جذبات اور گہرے ترین احساسات کو غالب نے جس انداز میں اپنی شاعری میں پرو ڈالا وہ ان کے اشعار پڑھنے والے ہر شخص کے لیے ایک ایسا  آئنہ ہے، جس میں غالب کی پوری شخصیت کا عکس نظر آتا ہے۔

 

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے

کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

سادہ الفاظ میں گہرے جذبات کا اظہار اس سے خوبصورت اندار میں نہیں کیا جا سکتا۔

غالب ایک شاعر ہی نہیں ایک فلسفی بھی تھے۔ انہوں نے فطرت کا نہ صرف بغور جائزہ کیا بلکہ اُس کے مظاہر کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔

سبزہ و گُل کہاں سے آئے ہیں

ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے

یا

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خُدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

 

مرزا اسد اللہ خان غالب کے اکثر اشعار ایسے ہیں جن کو پڑھنے والا  فلسفے اور فکر کی گہرائی میں ڈوب جاتا ہے اور ان اشعار کو جتنی بار پڑھا جائے ان میں سے ایک نیا پہلو اور نیا فلسفہ سامنے آتا ہے۔ مثال کے طور پر

نقش فریادی ہے کس کی شوخیٍ تحریر کا

کاغذی ہے پیراہن ہر پیکر تصویر کا

  غالب کا ہر شعر ہر دن روز اول کی طرح تازہ معلوم ہوتا ہے۔ کلام غالب پڑھنے والا اس میں پنہاں معنویت اور فکر میں غرق ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُردو اور فارسی کا یہ شاعر ہر روز  پہلے سے زیادہ پُر کشش اور دل میں بیٹھ جانے والا شاعر بنتا جا رہا ہے۔

ہوئی مدت کے غالب مر گیا پر اب بھی یاد آتا ہے