1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پٹھان کوٹ حملہ: بھارتی خفیہ اداروں پر سوالیہ نشان

جاوید اختر، نئی دہلی4 جنوری 2016

پٹھان کوٹ میں بھارتی فضائیہ کے اڈے پر حملے کے بعد ایک طرف تو بھارت کے خفیہ اداروں کی کارکردگی اور دفاعی سکیورٹی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جبکہ بھارت پاکستان تعلقات کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HXf8
Indien Angriff auf einem Luftwaffenstützpunkt
تصویر: Getty Images/AFP/N. Nanu

پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملے کے خلاف بھارتی سکیورٹی فورسز کی کارروائی کا آج پیر کو تیسرا دن ہے۔ اس آپریشن میں ایک لفٹنینٹ کرنل سمیت سات سکیورٹی اہلکار ہلاک اور بیس زخمی ہو چکے ہیں۔ حکام نے چار عسکریت پسندوں کو مارنے کا دعویٰ کیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ دو شدت پسند اب بھی کہیں چھپے ہوئے ہیں تاہم کوئی بھی اعلیٰ سول یا فوجی افسر واضح طور پر یہ کہنے کو تیار نہیں ہے کہ وہاں ابھی حقیقتاﹰ کتنے حملہ آور موجود ہیں۔ پاکستانی سرحد سے صرف پچیس کلومیٹر دور واقع پٹھان کوٹ ایئر بیس کافی بڑ ے علاقے پر پھیلی ہوئی ہے۔ وہاں فوجی تنصیبات کے علاوہ فضائیہ کے اہلکاروں کی فیملیز کے رہنے کے لئے رہائشیں اور اسکول وغیرہ بھی ہیں لہذا پورے علاقے اور تمام تنصیبات کی مکمل تلاشی اور جانچ کے بعد ہی آپریشن کے خاتمے کا اعلان کیا جائے گا۔

صورت حال کی سنگینی کے مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ رات گئے اعلیٰ سطحی میٹنگ کی، جس میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال، سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے اراکین، وزیر دفاع منوہر پریکر ، وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور خارجہ سیکریٹری سبرامنیم جے شنکر بھی موجود تھے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق میٹنگ میں پٹھان کوٹ حملے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا اور پاکستان کے ساتھ مستقبل کے تعلقات پر بھی غور و خوض کیا گیا۔ ادھر وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی سفارت کاروں کے ساتھ صلاح و مشورہ کیا اور پاکستان کے سلسلے میں آئندہ کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

خیال رہے کہ آئندہ پندرہ جنوری کو بھارت اور پاکستان کے خارجہ سیکریٹریوں کی ملاقات ہونی ہے۔گزشتہ پچیس دسمبر کو وزیر اعظم نریندر مودی نے اچانک لاہور جا کر پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو ان کی سالگرہ پر مبارک باد دی تھی، جس کے بعد دونوں ملکوں کے مابین تعلقات بحال ہونے کی امید پیدا ہوگئی تھی۔ خارجہ سیکریٹریوں کی میٹنگ اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ لیکن پٹھان کوٹ کے تازہ واقعہ کے بعد اس میٹنگ پر بھی سوالیہ نشانات لگ گئے ہیں گوکہ سرکاری طور پر ابھی کسی فیصلے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

پٹھان کوٹ حملے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت دفاعی پوزیشن میں آگئی ہے۔ اس لئے امکان ہے کہ وہ پاکستان سے جیش محمد کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کے لئے کہے گی اور اپنے اس موقف کا ایک بار پھر اعادہ کرے گی کہ دہشت گردی اور بات چیت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ادھر وزیر دفاع منوہر پریکر نے ایک تین رکنی انکوائری کمیٹی بنانے کا اعلان کیا، جو یہ پتہ لگائے گی کہ عسکریت ہسندوں کی موجودگی اور حملے سے متعلق خفیہ جانکاری ہونے کے باوجود وہ پٹھان کوٹ ایئربیس میں کس طرح داخل ہوگئے۔

دریں اثناء دفاعی اور سکیورٹی ماہرین نے پٹھان کوٹ پر حملے کے بعد خفیہ اداروں کی کارکردگی اور بھارتی دفاعی تیاریوں کے حوالے سے سخت نکتہ چینی کی ہے۔ ایئر وائس مارشل (ریٹائرڈ) کپل کاک نے کہا کہ’’حکومت کے پاس چوبیس گھنٹے پہلے ہی یہ واضح اطلاع پہنچ گئی تھی کہ دہشت گرد حملہ کرسکتے ہیں۔ اس کے باوجود اہم تنصیبات کی سکیورٹی میں اضافہ کیوں نہیں کیا گیا، اگر بروقت سکیورٹی تعینات کر دی جاتی تو ہمارے سات جوانوں کی قیمتی جانیں نہیں جاتیں۔‘‘ انہوں نے پٹھان کوٹ میں نیشنل سکیورٹی گارڈ بھیجنے کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کے فیصلے پر بھی سوال اٹھایا اور سات جوانوں کی ہلاکت کو ’سات افراد‘کی ہلاکت کہنے پر مرکزی داخلہ سیکریٹری راجیو مہرشی پر بھی نکتہ چینی کی۔ اس سوا ل کے جواب میں کہ کیا اس حملے میں پاکستانی آرمی یا آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے؟ سابق فوجی افسر نے کہا، ’’گوکہ یہ بات بھارتی رائے عامہ کے خلاف ہوگی تاہم میں اپنے تجزیے کی بنیاد پر واضح اور یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس میں پاکستانی آرمی یا آئی ایس آئی کا ہاتھ نہیں ہے۔‘‘

یہاں عالمی شہرت یافتہ تعلیمی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پاکستان اسٹڈیز کے کوآرڈینیٹر پروفیسر اجے درشن بیہرا نے سکیورٹی فورسز کے طریقہ کار پر سوال کرتے ہوئے کہا کہ ’’کل فورسز نے کہا تھا کہ تمام دہشت گردوں کا صفایا کردیا گیا ہے لیکن کئی جوانوں کی ہلاکت کے بعد بھی وہ آج کہہ رہے ہیں کہ آپریشن ابھی جاری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہے۔‘‘

موقر ادارہ انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انالسز کے ریسرچ فیلو اشوک بھوریا کا کہنا ہے کہ ’’اس حملے کا مقصد دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کے عمل کو ختم کرنا ہے۔ یہ حملہ کوئی غیر متوقع نہیں ہے لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ ہماری تیاریاں اتنی کمزور کیوں تھیں۔‘‘بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را(RAW) کے سابق سربراہ اے ایس دلت نے ایک بیان میں کہا کہ ’’ ؤپٹھان کوٹ آپریشن نے سکیورٹی فورسز کی کارکردگی سمیت بہت سارے سوالات پیدا کردیے ہیں۔ آخر دہشت گرد اتنی آسانی سے اور اتنے ڈھیر سارے ہتھیاروں کے ساتھ ایئر بیس میں داخل کیسے ہوگئے؟

دریں اثنا اپوزیشن کانگریس پارٹی نے داخلی سلامتی کے حوالے سے نریندر مودی حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو پاکستان کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں اپنے موقف کا از سر نوجائزہ لینا چاہیے۔