1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پچھلے سال امير لوگوں کی دولت کم ہوئی، رپورٹ

8 نومبر 2019

غير يقينی سياسی صورت حال، امريکا چين کشيدگی اور بازار حصص ميں بیقاعدگياں جيسی وجوہات پچھلے سال دنيا بھر ميں ارب پتی افراد کی دولت ميں مجموعی طور پر کمی کا سبب بنيں۔

https://p.dw.com/p/3ShK2
Symbolbild - Teezeit
تصویر: Colourbox/ssuaphoto

دنيا کے امير ترین افراد کی مجموعی دولت ميں پچھلے ايک سال ميں کمی واقع ہوئی ہے۔ يہ انکشاف 'يو بی ايس‘ اور 'پی ڈبليو سی‘ نامی اداروں کی جانب سے جاری کردہ ايک مشترکہ رپورٹ ميں کيا گيا ہے۔ سياسی اور جغرافيائی سطح پر افراتفری اور بازار حصص کی غیر یقینی صورت حال اس کمی کا سبب بنی۔ دنيا کے تمام ارب پتی افراد کی مجموعی دولت ميں ايک سال ميں 388 بلين ڈالر کی کمی نوٹ کی گئی اور اب ان کی ملکیت مجموعی رقوم 8,539 بلين ڈالر بنتی ہيں۔

مختلف خطوں کے لحاظ سے سب سے زيادہ کمی چين کے ارب پتی افراد کی دولت ميں، پھر امريکی ارب پتيوں کی دولت ميں اور تيسرے نمبر پر ايشيا پيسيفک خطے ميں بسنے والے ارب پتی افراد کی مجموعی دولت ميں نوٹ کی گئی۔ نجی بينکوں بشمول يو بی ايس نے امريکا اور چين کے درميان تجارتی کشيدگی کے اثرات محسوس کيے۔ اس کے علاوہ عالمی سياسیات ميں بے يقينی کے سبب بھی سرمايہ کاروں نے اپنے اپنے سرمائے کو تجارت ميں لگانے کی بجائے بينکوں ميں رکھنے کو ترجيح دی۔ اس رپورٹ ميں يو بی ايس کے سربراہ جوزف اسٹيڈلر نے کہا ہے سن 2008 کے بعد يہ پہلا موقع ہے کہ 'جيو پاليٹکس‘ کی وجہ سے ارب پتی افراد کی دولت ميں کمی واقع ہوئی ہے۔

چين سب سے زيادہ متاثرہ ملک ثابت ہوا۔ ڈالر کی قدر کے حوالے سے ديکھا جائے تو چين کے امير ترين افراد کی مجموعی دولت ميں 12.8 فيصد کمی نوٹ کی گئی۔ اس کی وجوہات ميں  بازار حصص کی غیر یقینی صورتحال، کمزور مقامی کرنسی اور اقتصادی نمو کی شرح ميں کمی شامل ہيں۔ ليکن اس کے باوجود جوزف اسٹيڈلر کا کہنا ہے کہ چين ميں ہر دو سے ڈھائی دن ميں ايک نيا شخص ارب پتی افراد کی فہرست ميں شامل ہوتا ہے۔

پچھلے سال دنيا بھر ميں ارب پتی افراد کی تعداد ميں کمی نوٹ کی گئی ليکن امريکا ميں ايسا نہ تھا۔ وہاں ٹيکنالوجی کے شعبے سے وابستہ افراد مستفيد ہوتے دکھائی ديے۔ امريکا ميں پچھلے سال کے اختتام پر ارب پتی افراد کی مجموعی تعداد 749 تھی۔

دولت مند افراد کی مہنگی ترین تفریحی کشتیاں

ع س / ک م، نيوز ايجنسياں