1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیرس میں امن کانفرنس لیکن اسرائیل اور فلسطینی غیر حاضر

علی کیفی ڈی پی اے
15 جنوری 2017

فرانس کی کوششوں سے اتوار پندرہ جنوری کو پیرس میں ایک بین الاقوامی امن کانفرنس ہو رہی ہے، جس کا مقصد تعطل کے شکار مشرقِ وُسطیٰ امن مذاکرات بحال کرنا ہے تاہم اسرائیل اور فلسطینی دونوں ہی اس کانفرنس میں شرکت نہیں کر رہے۔

https://p.dw.com/p/2Vp5g
Soldat vor Friedenstaube
تصویر: picture-alliance/dpa

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان نئے سرے سے امن مذاکرات پر زور دینے کے لیے دنیا بھر سے نمائندے فرانسیسی دارالحکومت پہنچ چکے ہیں۔ اس کانفرنس میں ستّر سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں تو شریک ہیں لیکن تنازعے کے اصل فریق یعنی اسرائیل اور فلسطینی دونوں ہی اس میں شرکت نہیں کر رہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو تو اس طرح کی کوئی کانفرنس منعقد کرنے کی فرانسیسی تجویز کو کئی بار رَد کر چکے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر کسی طرح کی امن شرائط کے لیے مجبور کیا جائے۔ نیتن یاہو کہہ چکے ہیں کہ اس کانفرنس کا مقصد اسرائیل مخالف نقطہ ہائے نظر کو تسلیم کرنا ہے۔

اسرائیل کے برعکس فلسطینیوں نے فرانسیسی کوششوں کا خیر مقدم کیا۔ فلسطینی صدر محمود عباس کے ایک مُشیر عبداللہ فرنجی نے کہا:’’وقت آ گیا ہے کہ یورپی اقوام کھُل کر اپنا موقف واضح کریں اور امن عمل میں سرگرم شرکت کریں۔‘‘

اس کانفرنس میں جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر کے ساتھ ساتھ جان کیری بھی شرکت کر رہے ہیں، جن کی اس کانفرنس میں شرکت بطور امریکی وزیر خارجہ غالباً اُن کی آخری سرکاری مصروفیات میں سے ایک ہے۔ وائٹ ہاؤس میں عنقریب ہونے والی تبدیلی کے تناظر میں یہ کانفرنس اُن بہت سے علامتی اقدامات میں سے ایک ہے، جن کے ذریعے امریکا اور دیگر ممالک نے اسرائیل اور فلسطینیوں پر امن مذاکرات کی میز پر واپس آنے کے لیے دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔

Israel Benjamin  Netanyahu
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہوتصویر: picture alliance/dpa/A.Sultan

ان اقدامات کا آغاز عالمی سلامتی کونسل میں اسرائیل کی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں بسانے کی پالیسی کے خلاف 23 دسمبر کو منظور ہونے والی اُس قرارداد سے ہوا تھا، جس میں امریکا نے ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا تھا تاہم درپردہ اِس قرارداد کی حمایت کی تھی۔

اس کے پانچ ہی روز بعد امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے مشرقِ وُسطیٰ تنازعے کے دونوں فریقوں سے ایک بھرپور اپیل کی تھی کہ وہ دو ریاستی حل کے امکان کو ترک نہ کریں یعنی ایک ایسا حل، جس میں اسرائیل اور فلسطین امن کے ساتھ ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو وجود رکھیں۔

 توقع کی جا رہی ہے کہ پیرس میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے شرکاء بھی اپنے اعلامیے میں دو ریاستی حل کی حمایت کریں گے۔

اسرائیلی فلسطینی تنازعے میں ایک تاحال نامعلوم عنصر آئندہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس خطّے کے حوالے سے ممکنہ پالیسیاں ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے اب تک کے بیانات میں اسرائیل کی یہودی بستیاں بسانے کی پالیسی کو قابلِ فہم قرار دیا ہے، جس کی وجہ سے نیتن یاہو بھی ٹرمپ سے بہت سی امیدیں وابستہ کر چکے ہیں اور ٹرمپ کی صورت میں ایک نئے عہد کے آغاز کی توقع کر رہے ہیں۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت قبول کر لی تھی تاہم بعد ازاں فرانسیسی حکام کا کہنا تھا کہ یہ شرکت منسوخ کر دی گئی ہے۔