1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیرس میں مہاجرین کے زیرقبضہ اسکول خالی کرنے کی کوشش، جھڑپیں

عاطف توقیر4 مئی 2016

بدھ کے روز فرانسیسی پولیس نے پیرس میں ایک اسکول کو مہاجرین کے قبضے سے آزاد کرا لیا ہے۔اس موقع پر پولیس اور مہاجرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جب کہ پولیس نے ان تارکین وطن کے خلاف آنسو گیس بھی استعمال کی۔

https://p.dw.com/p/1IhYx
Frankreich Räumung eines Flüchtlingslagers in Paris
تصویر: Getty Images/AFP/T. Samson

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیرس میں واقع یہ اسکول تزین و آرائش کے مرحلے میں تھا، جس کی وجہ سے یہاں طلبہ موجود نہیں تھے، تاہم گزشتہ دو ہفتوں سے مہاجرین نے اس اسکول میں داخل ہو کر یہاں ڈیرے ڈال رکھے تھے۔

بدھ کی علی الصبح پیرس کے شمال میں واقع اس اسکول میں پولیس نے داخل ہونا چاہا، تو مہاجرین نے اس اسکول کی عمارت کے گرد انسانی زنجیر بنا ڈالی۔ اس موقع پر بعض مہاجرین نے اپنے چہرے اور سر نقابوں اور ٹوپیوں سے چھپا رکھے تھے۔

اے ایف پی کے مطابق مہاجرین نے پولیس اہلکاروں پر پتھر اور دیگر اشیاء پھینکیں اور ’ہر شخص پولیس سے نفرت کرتا ہے‘ جیسے نعرے لگائے۔

Frankreich Räumung eines Flüchtlingslagers in Paris
فرانس میں مختلف مقامات پر مہاجرین نے خیمے لگا رکھے ہیںتصویر: picture alliance/abaca

پولیس کے مطابق ایک دوسرے راستے سے پولیس نے زبردستی اندر داخل ہونے کی کوشش کی، جہاں دروازوں اور کھڑکیوں کے آگے ٹیبل اور کرسیاں رکھ کر انہیں بند کر رکھا گیا۔

گھانا سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان مہاجر امانویل نے بتایا کہ پولیس کے اسکول میں داخل ہو جانے کے بعد وہ وہاں سے نکل گیا۔ اس کا کا مزید کہنا تھا، ’’آج صبح پولیس نے ہم پر آنسو گیس فائر کی اور زبردستی اسکول میں داخل ہو گئی۔ ہم نے رات کے وقت پولیس اہلکاروں کا راستہ روکنے کے لیے کرسیاں اور میزیں دروازوں کے آگے رکھ دیں تھیں، تاکہ وہ اندر داخل نہ ہو سکیں، تاہم وہ یہ ساری رکاوٹیں توڑ کر اندر داخل ہو گئے۔‘‘

امانویل نے کہا، ’’کسی گلی میں رہنے سے بہتر تھا کہ ہم یہاں رہتے۔ مجھے نہیں معلوم وہ اب ہمیں کہاں لے جائیں گے۔‘‘

اے ایف پی کے مطابق یہ اسکول تزین و آرائش کے مراحل میں تھا اسی لیے یہاں تعلیمی سرگرمیاں بند تھیں، تاہم اپریل کی 21 اور 22 تاریخ کو قریب ڈیڑھ سو مہاجرین اس اسکول کی عمارت میں داخل ہو گئے اور یہاں رہنے لگے۔

بتایا گیا ہے کہ یہاں موجود مہاجرین میں سے زیادہ تر تعداد افغانستان، اریٹریا، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے باشندوں کی تھی۔

مہاجرین کی مدد کرنے والے ایک غیرسرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ ان مہاجرین میں بہت سی خواتین بھی شامل ہیں، جب کہ ان میں سے دو حاملہ بھی ہیں۔