1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’چاہے کتنی باڑيں لگا دو، سرحديں بند کر دو، ہم آ کر رہيں گے‘

عاصم سليم12 مارچ 2016

متعدد يورپی ملکوں کی جانب سے سرحدوں کی بندش، بحيرہ ايجيئن ميں نيٹو کے بحری جہازوں کے گشت اور ترک حکام کی سخت تر کارروائيوں کے باوجود چند شامی مہاجرين اب بھی يورپ پہنچنے کے ليے پر عزم ہيں۔

https://p.dw.com/p/1ICBZ
تصویر: Reuters/M. Djurica

يونيورسٹی کے طالب علم تيئس سالہ محمد سوادی کا اپنے دو ساتھيوں کے ہمراہ سفر شامی دارالحکومت دمشق سے شروع ہوا تھا۔ انہيں گھر چھوڑنے سے قبل ہی معلوم تھا کہ يونان سے آگے بڑھنا مشکل ثابت ہو رہا ہے اور متعدد ممالک کی سرحديں بند ہيں تاہم وہ يورپ پہنچنے کے ليے پر عزم نظر آتے ہيں۔ سوادی کا کہنا ہے، ’’ہم نے ايک عہد کيا تھا، ہم يورپ پہنچ کر رہيں گے اور ايک ساتھ رہيں گے۔‘‘

يہ تينوں رشتہ دار نوجوان ترکی سے ہوتے ہوئے يونانی جزيرے کيوس پہنچے اور پھر وہاں سے پيرايوس۔ سوادی جرمنی اپنے بھائی کے پاس جانا چاہتا ہے اور پھر وہ ہالينڈ ميں جا کر مستقل بنيادوں پر قيام کا خواہاں ہے۔ ليکن بيشتر يورپی رہنما بھی اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہيں اور ايسا معلوم ہوتا ہے کہ ان تينوں شامی نوجوانوں کا سفر کافی وقت لے سکتا ہے۔

ايک ہفتے قبل يونان کی سرحديں بند کر دی گئی تھيں اور مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بحری جہاز بحيرہ ايجيئن کی گشت پر مامور ہيں۔ حاليہ پيش رفت کے بعد اس وقت خطے کی صورتحال انتہائی غير واضح ہے۔ اس سال کے آغاز سے روزانہ دو ہزار تارکين وطن يونان پہنچ رہے تھے تاہم اب اس تعداد ميں کافی تبديلی آ رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے اوسطاً ايک ہزار مہاجرين یومیہ يونان پہنچے جبکہ صرف بدھ کے دن يہ تعداد ساڑھے تين ہزار کے لگ بھگ رہی۔

سال رواں ميں کتنے پناہ گزين يورپ پہنچے
سال رواں ميں کتنے پناہ گزين يورپ پہنچے

ہجرت سے متعلق امور پر مہارت رکھنے والے يونانی دارالحکومت ايتھنز ميں مقيم ايک محقق اپوستولس فوتيادس کے مطابق جب تک جنگ اور بدحالی مہاجرين کی زندگياں متاثر کرتے رہيں گے، اس وقت تک مہاجرين کی آمد جاری رہ سکتی ہے۔ ان کے بقول بلقان ممالک کی جانب سے روٹ کی بندش کا مطلب يہ نہيں ہے کہ اب لوگ شمالی يورپ پہنچنے کی کوشش ترک کر ديں گے۔ انہوں نے بتايا، ’’مہاجرين اب ديگر ذرائع استعمال کريں گے، زيادہ پر خطر راستے اختيار کريں اور بلقان ممالک ميں جرائم کی شرح ميں اضافہ ہو گا۔‘‘

سوادی کے ساتھ سفر کرنے والا اس کا ايک کزن صالح عابد کا کہنا تھا، ’’ہم شامی شہريوں کو اپنی قسمت خود ہی لکھنی ہو گی۔ ہم ايک خيمہ خريديں گے اور سرحد پر چلے جائيں گے۔ مجھے وہاں جانے سے کوئی خوف نہيں۔ ميں بس کسی مہاجر کيمپ ميں نہيں رہوں گا۔‘‘ اس کے بقول اب حالات کافی مختلف ہيں۔ گزشتہ برس يورپ پہنچنا کافی آسان تھا، جب لوگ ايک دوسرے کا پيچھا کرتے بس چل رہے تھے تاہم اب سب کچھ خود کرنا پڑتا ہے۔