1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چين نے امريکی ڈرون واپس کر ديا، تنازعہ وہيں کا وہيں

عاصم سلیم
20 دسمبر 2016

امريکی محکمہٴ دفاع نے يہ تصديق کر دی ہے کہ چين نے کچھ روز اپنی تحويل ميں رکھنے کے بعد امريکی بحری ڈرون واپس کر ديا ہے۔ يہ معاملہ دنيا کی دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين ايک نيا سفارتی تنازعہ بن کر سامنے آيا ہے۔

https://p.dw.com/p/2UcGT
Schottland US Unterwasserdrone
تصویر: picture alliance/dpa/US Department of Defense/S. Carrizosa

پينٹاگون نے اس خبر کی تصديق کرتے ہوئے بتايا کہ ڈرون کو اس مقام کے قريب ہی واپس کيا گيا، جہاں سے اسے پچھلے ہفتے تحويل ميں ليا گيا تھا۔ محکمہٴ دفاع کے پريس سيکرٹری پيٹر کُک نے چين کے اس اقدام کی دوبارہ مذمت کرتے ہوئے کہا، ’’يہ اقدام نہ تو بين الاقوامی قوانين سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی سمندر ميں سرگرم عمل دو ممالک کی بحری افواج کے درميان پيشہ وارانہ طرز عمل کی عکاسی کرتا ہے۔‘‘ ان کے مطابق چينی حکام پر زور ديا گيا ہے کہ مستقبل ميں بين الاقوامی قوانين اور پيشہ وارانہ معيارات کا خيال رکھا جانا چاہيے اور يہ بھی کہ چين جائز امريکی سرگرميوں کی راہ ميں رکاوٹ بننے سے گريز کرے۔

فلپائن کے قريبی سمندر سے ايک چينی بحری جہاز نے امريکا کا ايک زير آب خودکار ڈرون گزشتہ ہفتے اپنی تحويل ميں لے ليا تھا۔ يہ واقعہ سیوبک بے سے قريب پچاس سمندری ميل کے فاصلے پر پيش آيا۔ پينٹاگون نے بعد ازاں اپنے ایک بيان ميں کہا کہ امريکی بحريہ کا يہ ڈرون جنوبی چينی سمندر کی بين الاقوامی سمندری حدود ميں معمول کے آپريشنز ميں مصروف تھا۔ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پہلے ہی کچھ زيادہ خاص نہيں ہيں تاہم اس تازہ واقعے نے ايک نيا سفارتی تنازعہ کھڑا کر ديا ہے۔

ڈرون کی واپسی پر امريکی مذمت کے برعکس چينی وزارت دفاع کی جانب سے کہا گيا ہے کہ ڈرون کی واپسی کا عمل دوستانہ نوعيت کی مکالمت کے بعد اور بلا کسی دشواری عمل ميں آيا۔ وزارت خارجہ کی ترجمان ہُوا چُنينگ کے بقول معاملے سے جس انداز ميں نمٹا گيا، وہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ دونوں ممالک کے مابين مواصلات کے چينل بلا رکاوٹ کام کر رہے ہيں۔ تاہم انہوں نے امريکا کو خبردار کيا ہے کہ وہ چينی سمندری حدود کی خلاف ورزی سے باز رہے۔

امريکی محکمہٴ دفاع پينٹاگون کے اہلکاروں کے مطابق چين نے ان کے ڈرون کو ’غير قانونی‘ طور پر تحويل ميں ليا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ يہ ڈرون پانی کا درجہٴ حرارت، اس ميں نمک کی مقدار اور شفافيت جيسی چيزوں کے بارے ميں ڈيٹا جمع کرتا ہے۔ ايسا ڈيٹا آبدوزوں کے ليے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب چين کا کہنا ہے کہ ڈرون اس ليے تحويل ميں ليا گيا کيونکہ وہ دوسرے بحری جہازوں کے ليے خطرہ ثابت ہو سکتا تھا۔ اگرچہ واشنگٹن اس بات پر مصر ہے کہ متعلقہ ڈرون جاسوسی کے ليے استعمال نہيں کيا جا سکتا تاہم چين نے تنبيہ کی ہے کہ امريکا جاسوسی سے متعلق اپنی سرگرمياں ترک کر دے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید