1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چھ کروڑ افراد ترک وطن پر مجبور، نيا عالمی ريکارڈ

عاصم سليم18 دسمبر 2015

اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ برس جنگ، تشدد اور ظلم و ستم سے فرار ہونے والوں کی ريکارڈ تعداد تقريباً ساٹھ ملين تھی جس ميں اس سال مزيد اضافہ ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HPdF
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين UNHCR کی جانب سے بتايا گيا ہے کہ اس سال تقريباً ايک ملين پناہ گزين بحيرہ روم پار کر چکے ہيں جبکہ شام اور متعدد ديگر ممالک ميں مسلح تنازعات کے سبب انسانوں کو شديد مشکلات کا سامنا ہے اور وہ نقل مکانی اختيار کر رہے ہيں۔ ايسے ميں امکان ہے کہ جنگ، تشدد، ظلم و ستم اور ديگر وجوہات کی بناء پر اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے والوں کی تعداد 2015ء ميں تمام پچھلے ريکارڈ توڑ سکتی ہے۔ يہ انکشاف يو اين ايچ سی آر کی طرف سے آج بروز جمعہ جاری کردہ ايک رپورٹ ميں کيا گيا۔ رپورٹ ميں پہلے چھ ماہ کے اعداد و شمار شامل ہيں، جن کی بنياد پر ہی يہ پيشن گوئی کی گئی ہے کہ سال کے اختتام تک عالمی سطح پر پناہ گزينوں کے حيثيت سے رہنے والوں کی تعداد اتنی بلند ہو سکتی ہے کہ ايک نيا ريکارڈ قائم ہو سکتا ہے۔

گزشتہ برس عالمی سطح پر بے گھر افراد کی تعداد لگ بھگ 59.5 ملين تھی تاہم آج جمعے کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سال رواں ميں اضافے کے بعد يہ تعداد باآسانی ساٹھ ملين سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ اس وقت ہر 122 افراد ميں ايک شخص ايسا ہے، جو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين کے سربراہ انٹونيو گُوٹیریس نے کہا کہ اب يہ مسئلہ ہمارے دور اور زندگيوں کو متاثر کر رہا ہے۔ ’’اپنا سب کچھ کھو دينے والوں کے ساتھ رحم اور اظہار يکجہتی کی اس پہلے کبھی اتنی ضرورت نہيں تھی۔‘‘

رواں برس کے پہلے چھ ماہ ميں کم از کم پانچ ملين افراد پہلی مرتبہ بے گھر ہوئے، جن ميں تقريبا 4.2 ملين اپنے ہی ممالک ميں نقل مکانی پر مجبور ہوئے جبکہ بقيہ قريب 839,000 نے پناہ کی تلاش ميں سرحديں عبور کيں۔ ان اعداد و شمار کے تحت يوميہ بنيادوں پر 4,600 افراد مہاجرين بنے۔ رواں سال جون کے اختتام تک دنيا بھر ميں قريب 20.2 ملين افراد پناہ گزينوں کی طور پر زندگياں بسر کر رہے تھے، جس کا اگر 2011ء کے اعداد و شمار سے موازنہ کيا جائے تو يہ پينتاليس فيصد کا اضافہ ہے۔

رواں برس کے پہلے چھ ماہ ميں کم از کم پانچ ملين افراد پہلی مرتبہ بے گھر ہوئے
رواں برس کے پہلے چھ ماہ ميں کم از کم پانچ ملين افراد پہلی مرتبہ بے گھر ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/R. Atanasovskia

يو اين ايچ سی آر کے مطابق اس مسئلے کی بنيادی وجہ شامی خانہ جنگی ہے، جس سبب رواں سال جون تک 4.2 ملين اضافی افراد پناہ گزين بن چکے ہيں۔ اگر شامی خانہ جنگی کے متاثرين کو ان اعداد و شمار سے خارج کر ديا جائے، تو سن 2011 سے سن 2015 کے درميان مہاجرين کی تعداد ميں کُل اضافہ محض پانچ فيصد بنتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين کے مطابق جمعے اٹھارہ دسمبر کو جاری کردہ رپورٹ ميں يورپ کو درپيش پناہ گزينوں کے بحران کا کچھ ہی حصہ ظاہر ہے کيونکہ سال رواں کہ آخری چھ ماہ ميں پناہ گزينوں کی تعداد ميں کافی زيادہ اضافہ ديکھنے ميں آيا تھا اور اس حوالے سے اعداد و شمار اس رپورٹ ميں شامل نہيں۔

اس کے علاوہ سياسی پناہ کی درخواستيں جمع کرانے کے حوالے سے جرمنی سرفہرست ملک رہا، جہاں سن 2015 کے پہلے چھ ماہ ميں 159,000 درخواستيں جمع کرائی گئيں۔ بعد ازاں جرمنی ميں اس سلسلے ميں خاطر خواہ اضافہ ديکھا گيا اور امکان ہے کہ سال کے اختتام تک تقريباً ايک ملين افراد جرمنی ميں سياسی پناہ کے ليے درخواستيں جمع کرائيں گے۔